بعض احناف یہ اعتراض کرتے ہیں کہ "آمین بالجہر سے مسجد گونج اُٹھی” والی مشہور مرفوع روایت ضعیف ہے، کیونکہ اس کے ایک راوی بشر بن رافع پر بعض محدثین نے جرح کی ہے۔ وہ اس ایک راوی کی بنیاد پر پوری روایت اور اس کے ذریعے ثابت ہونے والے مسئلہ (آمین بالجہر) کو ہی غیر معتبر قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ طرزِ استدلال محلِ نظر ہے، کیونکہ:
-
یہ مسئلہ دوسری متعدد صحیح اور حسن روایات سے بھی ثابت ہے۔
-
بشر بن رافع پر جرح و تعدیل دونوں منقول ہیں، اور کئی ائمہ نے اس سے احتجاج کیا ہے۔
-
ایک راوی پر ہلکی یا محتمل جرح ہونے سے ہرگز یہ لازم نہیں آتا کہ اس کی تمام روایات مطلقاً ناقابلِ اعتبار ہوں۔
اصل روایت – سنن ابن ماجہ
853 – حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ رَافِعٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ عَمِّ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: تَرَكَ النَّاسُ التَّأْمِينَ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَالَ: {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ}، قَالَ: «آمِينَ» حَتَّى يَسْمَعَهَا أَهْلُ الصَّفِّ الْأَوَّلِ، فَيَرْتَجُّ بِهَا الْمَسْجِدُ
(الكتاب: سنن ابن ماجه، رقم 853)
ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: لوگوں نے آمین کہنا چھوڑ دیا ہے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ جب (غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ) کہتے تو (بلند آواز سے) آمین کہتے، حتیٰ کہ پہلی صف والے سن لیتے، پھر اس (آمین) کی آواز سے مسجد گونج اٹھتی۔
حنفی اعتراض کا خلاصہ
معترضین کہتے ہیں کہ اس روایت کا راوی بشر بن رافع ضعیف اور حتیٰ کہ "موضوع حدیثیں روایت کرنے والا” ہے، اس لیے یہ روایت مردود ہے۔ اس دعوے میں وہ امام بخاری، احمد، ابن معین، نسائی، ابن حبان، اور ابن عبدالبر وغیرہ کی جرحات کو پیش کرتے ہیں۔
ائمہ کی توثیق اور جرح کا علمی جائزہ
حنفی معترض نے روایت کو صرف اس لیے ضعیف کہا کہ اس میں بشر بن رافع الحارثی نامی راوی ہے۔ حالانکہ محدثین کی ایک بڑی جماعت نے اس کی روایت کو قبول کیا اور اسے ثقہ یا کم از کم "لا بأس به” قرار دیا۔ یہاں ہم اس راوی پر محدثین کے اقوال پیش کرتے ہیں۔
1 – امام بخاریؒ کی توثیق
"بشر بْن رافع اليماني أبو أسباط الحارثي … وقال ابن أبي إسرائيل: حَدَّثَنَا عبد الرزاق حَدَّثَنَا بشر إمام أهل نجران ومفتيهم.”
(التاريخ الكبير للبخاري، رقم 1736)
ترجمہ:
"بشر بن رافع یمانی، کنیت ابو اسباط الحارثی … ابن ابی اسرائیل نے کہا: ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا کہ بشر اہلِ نجران کے امام اور مفتی تھے۔”
📌 امام بخاری کا "إمام” اور "مفتيهم” کہنا جمہور کے نزدیک زبردست توثیق کے درجہ میں ہے، جیسا کہ احناف خود تسلیم کرتے ہیں۔
2 – امام یحییٰ بن معینؒ
"قد روى عبد الرزاق عن رجل يقال له بشر بن رافع ليس به بأس”
(تاريخ ابن معين، رواية الدوري، رقم 555)
ترجمہ:
"عبدالرزاق نے ایک شخص بشر بن رافع سے روایت کی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔”
📌 "ليس به بأس” محدثین کے ہاں کم از کم صدوق اور قابلِ احتجاج راوی کے لیے آتا ہے۔
3 – ابو احمد عدی الجرجانیؒ
"بشر بن رافع … مقارب الحديث لا بأس بأخباره ولم أجد له حديثًا منكرا”
(الكامل في ضعفاء الرجال، 2/249)
ترجمہ:
"بشر بن رافع مقارب الحدیث ہے، اس کی خبروں میں کوئی حرج نہیں، اور میں نے اس کی کوئی منکر حدیث نہیں پائی۔”
📌 "مقارب الحدیث” یعنی اس کی روایات معروف اور قابلِ قبول ہیں، اور منکر روایت نہ ہونا اہم توثیقی نکتہ ہے۔
4 – امام حاکم نیشاپوریؒ
"بشر بن رافع الحارثي ليس بالمتروك”
(المستدرك على الصحيحين، 1/1990)
ترجمہ:
"بشر بن رافع الحارثی متروک نہیں ہے۔”
📌 متروک نہ ہونا کم از کم قبولِ روایت کے درجے پر دلالت کرتا ہے، خصوصاً جب دوسرے محدثین نے اسے "لا بأس به” کہا ہو۔
5 – امام زین الدین العراقیؒ (آمین والی روایت پر)
"وابن ماجه من حديث أبي هريرة بإسناد جيد مرفوعًا: … حتى يسمعنا أهل الصف الأول فيرتج بها المسجد”
(طرح التثريب في شرح التقريب)
ترجمہ:
"ابن ماجہ نے ابو ہریرہؓ سے ایک حدیث مرفوع سندِ جید کے ساتھ روایت کی: … یہاں تک کہ ہمیں پہلی صف والے سن لیتے اور مسجد اس سے گونج اٹھتی۔”
📌 امام عراقی نے آمین بالجہر والی روایت کو "بإسناد جيد” قرار دیا، جو حسن لغیرہ یا حسن کے درجے کی طرف واضح اشارہ ہے۔
محدثین کے منفی اقوال اور ان کا علمی تجزیہ
حنفی معترض نے بشر بن رافع پر بعض محدثین کی جرحات نقل کیں، جیسے امام احمد، امام نسائی، ابن حبان، اور ابن عبدالبر وغیرہ۔ اب ہم ان جرحات کی نوعیت اور ان کا علمی جواب پیش کرتے ہیں۔
1 – امام احمدؒ کی جرح
معترض نے امام احمد کا ضعیف کہنا نقل کیا، لیکن اس کے ساتھ یہ نہیں بتایا کہ دیگر ائمہ (بخاری، ابن معین، عدی، حاکم) نے اس کی توثیق کی ہے۔ جرح و تعدیل کے اصول کے مطابق مفسر جرح تبھی راجح ہوتی ہے جب وہ جمہور کی توثیق پر غالب آنے والی قوی دلیل ہو، اور یہاں ایسا نہیں ہے۔
2 – امام نسائیؒ کا قول "ليس بالقوي”
"أبو الأسباط يروي عنه حاتم بن إسماعيل ليس بالقوي”
(الضعفاء والمتروكون للنسائي، رقم 670)
📌 "ليس بالقوي” جرحِ مفسد نہیں ہے، یہ صرف حفظ کے کمزور ہونے یا ضبط کے درجے کے لیے آتی ہے، اور ایسی جرح کے باوجود محدثین اس سے احتجاج کر لیتے ہیں۔
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں:
"قَالَ النَّسَائِيّ لَيْسَ بذلك الْقوي— فَأَما تَضْعِيف النَّسَائِيّ لَهُ فمشعر بِأَنَّهُ غير حَافظ”
امام نسائی کے قول سےمعلوم ہوتا ہے کہ یہ حافظ نہیں ہے، یعنی یہ حافظ ہونی کی نفی ہے اور یہ ہلکی جرح ہے
(فتح الباري شرح صحيح البخاري)
3 – ابن حبان کا قول "يروي أشياء موضوعة”
ابن حبان کو خود احناف بھی متشدد مانتے ہیں، اور اس نے ائمہ کبیر جیسے امام ابو حنیفہ، قاضی ابو یوسف وغیرہ پر بھی جرح کی ہے۔ ان کے منفرد سخت اقوال کو اجماعی حیثیت نہیں دی جاتی، خاص طور پر جب دوسرے ائمہ نے اسی راوی کو "لا بأس به” اور "مقارب الحديث” کہا ہو۔
4 – ابن عبدالبر کا ابتدائی اور بعد کا موقف
معترض نے ابن عبدالبر کا یہ جملہ نقل کیا کہ "محدثین کا اتفاق ہے کہ اس کی روایت کا انکار کیا جائے”، لیکن انہی ابن عبدالبر نے اپنی کتاب التمهيد میں آمین بالجہر کے اثبات کے لیے بشر بن رافع ہی کی روایت نقل کی اور اس سے احتجاج کیا:
"وَقَالَ الْكُوفِيُّونَ وَبَعْضُ الْمَدَنِيِّينَ لَا يَجْهَرُ بِهَا وَهُوَ قَوْلُ الطَّبَرِيِّ
وَقَالَ الشَّافِعِيُّ وَأَصْحَابُهُ وَأَبُو ثَوْرٍ وَأَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَأَهْلُ الْحَدِيثِ يُجْهَرُ بِهَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ قَالَ حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى عَنْ بِشْرِ بْنِ رَافِعٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ عَمِّ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسلم إذا تَلَا غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ قَالَ آمِينَ حَتَّى يَسْمَعَ مَنْ يَلِيهِ مِنَ الصَّفِّ الْأَوَّلِ"(التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد)کوفیوں اور کچھ مدنییوں کا کہنا ہےکہ آمین جھرسے نہیں کی جائے گی، جبکہ امام شافعی، اور انکے اصحاب، امام ابوثور امام احمد ابن حنبل اور اہلحدیث کا قول ہےکہ امین جھر سے کہی جائیگی، اور ابن عبدالبر نے اس بات کیلئے بِشْرِ بْنِ رَافِعٍ نامی راوی سے روایت نقل کی اور اس سے کوفیوں کے خلاف احتجاج کیا ہے۔
📌 اگر ابن عبدالبر کے نزدیک یہ راوی مطلقاً ناقابلِ احتجاج ہوتا تو وہ اس سے اہلِ کوفہ کے خلاف دلیل نہ لیتے۔
5 – امام دارقطنیؒ کا حکم
"هذا إسناد حسن”
(تفسير ابن كثير، روایت آمین بالجهر)
📌 امام دارقطنی نے آمین بالجہر والی روایت کی سند کو "حسن” کہا ہے، جو اس کے قابلِ احتجاج ہونے کی واضح دلیل ہے۔
دیگر دلائل اور عملی مثالیں
"آمین بالجہر” صرف بشر بن رافع کی روایت سے ثابت نہیں، بلکہ اس کے متعدد مؤید شواہد موجود ہیں جو اسے تقویت دیتے ہیں، اور بعض صحیح اسناد سے ہیں۔
1 – صحیح بخاری میں اثر ابن زبیرؓ
"وقال عطاء: آمين دعاء. أمَّن ابن الزبير ومن وراءه حتى إن للمسجد لَلَجَّةً”
(صحيح البخاري، كتاب الأذان)
ترجمہ:
عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں: آمین دعا ہے۔ ابن زبیرؓ اور ان کے پیچھے لوگ اس زور سے آمین کہتے کہ مسجد گونج اٹھتی۔
📌 امام بخاری نے اسے جزم کے صیغہ سے بغیر سندِ وسطی نقل کیا، جو ان کے نزدیک اس اثر کے ثبوت پر دلالت کرتا ہے۔
2 – اثر عطاء بن ابی رباحؒ – دو سو صحابہ کا عمل
"أدركت مائتين من أصحاب رسول الله ﷺ في هذا المسجد – يعني المسجد الحرام – إذا قال الإمام ولا الضالين رفعوا أصواتهم بآمين”
(الثقات لابن حبان)
ترجمہ:
عطاء بن ابی رباحؒ فرماتے ہیں: میں نے اس مسجد (مسجد الحرام) میں رسول اللہ ﷺ کے دو سو صحابہ کو پایا، جب امام "ولا الضالين” کہتا تو سب بلند آواز سے آمین کہتے۔
📌 سند صحیح، تمام رواۃ ثقہ ہیں: اسحاق بن راہویہ، علی بن الحسن العبدي، ابو حمزہ السكري، مطرف بن طريف، خالد بن أبي نوف، عطاء بن أبي رباح۔
3 – حافظ ابن حزمؒ کا حکم
حافظ ابن حزمؒ نے بشر بن رافع کی روایت سمیت متعدد اسانید نقل کرنے کے بعد کہا:
"فهذه آثار متواترة عن رسول الله ﷺ بأنه كان يقول آمين وهو إمام في الصلاة، يسمعها من وراءه”
(المحلى بالآثار)
ترجمہ:
"یہ آثار رسول اللہ ﷺ سے تواتر کے ساتھ مروی ہیں کہ آپ نماز میں امام ہوتے ہوئے آمین کہتے اور پیچھے والے سنتے۔”
4 – امام دارقطنیؒ کا حکم
"هذا إسناد حسن”
(تفسير ابن كثير، بعد روایت آمین بالجهر)
ترجمہ:
"یہ (آمین بالجہر) والی روایت حسن سند رکھتی ہے۔”
یہ تمام شواہد واضح کرتے ہیں کہ آمین بالجہر کا عمل صرف ایک راوی پر منحصر نہیں بلکہ کثیر طرق اور صحابہ کے تواترِ عملی سے ثابت ہے۔
خلاصہ اور نتیجہ
اس تفصیلی تحقیق سے درج ذیل امور ثابت ہوئے:
-
اصل روایت (سنن ابن ماجہ 853) حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے اور اس میں بشر بن رافع راوی ہے۔
-
بشر بن رافع پر جرح اور تعدیل دونوں منقول ہیں؛ امام بخاریؒ، ابن معینؒ، ابو احمد عدیؒ، امام حاکمؒ وغیرہ نے اس کی روایت کو قبول کیا، اور امام عراقیؒ نے اسی روایت کو "بإسناد جيد” کہا۔
-
بعض ائمہ کی ہلکی جرحات (جیسے "ليس بالقوي”) جرح مفسد نہیں ہیں، اور ایسے راوی سے ائمہ نے احتجاج بھی کیا ہے۔
-
ابن عبدالبرؒ نے اسی بشر بن رافع کی روایت کو کوفیوں کے خلاف بطورِ حجت نقل کیا، جو اس راوی کے قابلِ احتجاج ہونے کی دلیل ہے۔
-
آمین بالجہر کا ثبوت صرف اس ایک سند سے نہیں بلکہ صحیح بخاری کے اثر ابن زبیرؓ، اثر عطاء بن ابی رباحؒ (دو سو صحابہ کا عمل)، اور متعدد طرق سے ثابت ہے۔
-
حافظ ابن حزمؒ نے آمین بالجہر کے بارے میں "آثار متواترة” کا حکم لگایا، اور امام دارقطنیؒ نے اس کی سند کو "حسن” کہا۔
📌 نتیجہ:
آمین بالجہر سے مسجد گونج اٹھنے والی روایت کو محض ایک راوی پر ہلکی یا غیر مفسد جرح کی بنیاد پر رد کرنا درست نہیں، کیونکہ یہ عمل کثیر شواہد، صحابہ کے تواترِ عملی، اور جمہور اہل حدیث و فقہاء کے اقوال سے ثابت ہے۔