نماز میں سینے پر ہاتھ: امام ابن قیمؒ اور امام احمدؒ سے منسوب اقوال کا تحقیقی جائزہ
مرتب کردہ: ابو حمزہ سلفی

بعض حنفی مقلدین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا غلط ہے، اور اس پر وہ امام ابن قیم الجوزیہؒ اور امام احمد بن حنبلؒ کے اقوال پیش کرتے ہیں، جن میں مبینہ طور پر اس عمل کو "مکروہ” کہا گیا ہے۔

اس مضمون میں ہم ان دعووں کا تحقیقی جائزہ لیں گے، اور دیکھیں گے کہ:

  1. کیا واقعی امام ابن قیمؒ اور امام احمدؒ نے سینے پر ہاتھ رکھنے کو مکروہ کہا؟

  2. "تکفیر” کے مفہوم اور نماز میں سینے پر ہاتھ رکھنے کے تعلق کو اصل لغوی ماخذ سے واضح کریں گے۔

  3. ساتھ ہی، ائمہ و محدثین کے وہ نصوص پیش کریں گے جن میں نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے کا اثبات ہے۔

ابن قیمؒ سے منسوب قول کی حقیقت

1 – بدائع الفوائد کی اصل عبارت

"اختلف قوله في صفة وضع اليد على اليد، فعنه أحمد بن أصرم المزني وغيره: أنه يقبض بيمينه على رسغ يساره … في رواية المزني: ‘أسفل السرة بقليل ويكره أن يجعلهما على الصدر’، وذلك لما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه نهي عن التكفير، وهو وضع اليد على الصدر.”
(بدائع الفوائد لابن القيم)

ترجمہ:
"ہاتھ پر ہاتھ رکھنے کی کیفیت میں اختلاف ہے۔ احمد بن اصرم مزنی وغیرہ سے روایت ہے کہ وہ دائیں ہاتھ سے بائیں کے کلائی کو پکڑتے … اور مزنی کی روایت میں ہے: ناف سے تھوڑا نیچے ہاتھ باندھے، اور انہیں سینے پر رکھنا مکروہ ہے، کیونکہ نبی ﷺ سے مروی ہے کہ آپ نے ‘تکفیر’ (یعنی ہاتھ سینے پر رکھنے) سے منع فرمایا۔”

📌 اہم نکتہ:
یہ ابن قیمؒ کا اپنا قول نہیں، بلکہ احمد بن اصرم المزنی (م 285ھ) کا ذاتی قول ہے۔ ابن قیمؒ نے اسے "وذلك لما روى عن النبي” یعنی صیغۂ تمریض (روایت کیا گیا) سے نقل کیا ہے، جو محدثین کے ہاں سند کے ضعیف ہونے کی علامت ہے۔

2 – ابن قیمؒ کا اپنا بیان نماز میں ہاتھ رکھنے پر

ابن قیمؒ نے "الصلاة وأحكام تاركها” میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کا طریقہ نقل کرتے ہوئے لکھا:

"ثم كان يمسك شماله بيمينه فيضعها عليها فوق المفصل ثم يضعها على صدره”
(الصلاة وأحكام تاركها لابن القيم)

ترجمہ:
"پھر آپ ﷺ اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ سے پکڑتے، اور اسے جوڑ کے اوپر رکھتے، پھر انہیں اپنے سینے پر رکھتے۔”

📌 اس سے واضح ہے کہ ابن قیمؒ کے نزدیک سینے پر ہاتھ رکھنا رسول اللہ ﷺ کی سنت کا حصہ ہے، اور اس کو مکروہ قرار دینا ان کا اپنا موقف نہیں۔

امام احمدؒ سے منسوب قول کی تحقیق

1 – مسائل الإمام أحمد روایۃ أبی داود میں منسوب قول

"وَسَمِعْتُهُ، يَقُولُ: يَكْرَهُ أَنْ يَكُونَ، يَعْنِي: وَضْعَ الْيَدَيْنِ عِنْدَ الصَّدْرِ”
(مسائل الإمام أحمد رواية أبي داود السجستاني)

ترجمہ:
"اور میں نے انہیں (امام احمد) کو یہ کہتے ہوئے سنا: سینے کے پاس ہاتھ رکھنا مکروہ ہے۔”

📌 تحقیقی نوٹ:
یہ قول أحمد بن العلاء بن الشاه السغدي کے طریق سے مروی ہے، جو مجہول راوی ہے۔ سند اس طرح ہے:

حدثنا أبو العباس أحمد بن العلاء بن الشاه السغدي، قال: أخبرنا أبو بكر محمد بن بكر بن محمد بن عبد الرزاق التمار … قال: حدثنا أبو داود … قال: قلت لأحمد بن حنبل …

پس سند میں مجہول راوی کی وجہ سے یہ اثر قابلِ احتجاج نہیں رہتا۔

2 – امام احمدؒ کا اپنا عمل (بیٹے کی روایت سے)

عبداللہ بن احمد الشیبانی (م 290ھ) بیان کرتے ہیں:

"رَأَيْتُ أَبِي إِذَا صَلَّى وَضَعَ يَدَيْهِ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى فَوْقَ السُّرَّةِ”
(مسائل أحمد بن حنبل رواية ابنه عبد الله، رقم 260)

ترجمہ:
"میں نے اپنے والد (امام احمد) کو دیکھا کہ جب وہ نماز پڑھتے تو اپنے دونوں ہاتھوں میں سے ایک کو دوسرے پر ناف کے اوپر رکھتے تھے۔”

📌 "ناف کے اوپر” کا مطلب سینے کے قریب حصہ ہے، جو سینے پر ہاتھ رکھنے کے منافی نہیں، خصوصاً جب بعض روایات میں "على صدره” صراحت کے ساتھ آتا ہے۔

3 – امام اسحاق بن راہویہؒ کا عمل (امام احمدؒ کے معاصر)

إسحاق بن منصور الکوسج (شاگردِ خاص امام احمدؒ و امام اسحاق) بیان کرتے ہیں:

"ويضع يديه على ثدييه أو تحت الثديين”
(مسائل الإمام أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه، رقم 3547)

ترجمہ:
"اور وہ (امام اسحاق) اپنے ہاتھ اپنی چھاتی پر یا چھاتی کے نیچے رکھتے تھے۔”

📌 امام احمدؒ اور امام اسحاق کا فقہی منہج ایک دوسرے سے قریب تھا، اس لیے اس عمل کو ان کے موافق سمجھا جاتا ہے۔

4 – مسائل أبی داود میں امام احمدؒ کا ایک اور اصولی جواب

"سَمِعْتُ أَحْمَدَ، قِيلَ لَهُ: رَجُلٌ سَمِعَ هَذِهِ الْأَحَادِيثَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، ثُمَّ لَا يَرْفَعُ، هُوَ تَامُّ الصَّلَاةِ؟ قَالَ: تَمَامُ الصَّلَاةِ لَا أَدْرِي، وَلَكِنْ هُوَ عِنْدِي فِي نَفْسِهِ مُنْقَصٌ غَرِّضٌ”
(مسائل الإمام أحمد رواية أبي داود السجستاني)

ترجمہ:
"میں نے احمد کو کہتے سنا: ایک شخص رسول اللہ ﷺ کی حدیث سنتا ہے اور پھر (اس پر عمل) نہیں کرتا، کیا اس کی نماز پوری ہے؟ فرمایا: نماز کا پورا ہونا تو مجھے معلوم نہیں، لیکن میرے نزدیک وہ اپنے نفس میں ناقص اور کمی والا ہے۔”

📌 یہ جواب امام احمدؒ کا سنت کے ترک پر عمومی موقف ظاہر کرتا ہے، اور اسی اصول کو ہاتھ رکھنے کی سنت پر بھی لاگو کیا جا سکتا ہے۔

تکفیر کا لغوی و شرعی مفہوم اور اس کا سینے پر ہاتھ رکھنے سے تعلق

احناف کے بعض معترضین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ نماز میں سینے پر ہاتھ رکھنا "تکفیر” کہلاتا ہے اور اس سے ممانعت ہے۔ زیل میں ہم لغوی کتب اور ائمہ کے بیانات سے "تکفیر” کا اصل مفہوم واضح کریں گے۔

1 – تاج العروس (الزبیدیؒ)

"وتَكفيرُ أهلِ الْكتاب أَن يُطَأْطِئ رَأْسَه لصاحبِه كالتَّسْليم عندنَا. وَقد كَفَّر لَهُ. وَقيل: هُوَ أَن يَضَعَ يَدَه أَو يَدَيْه على صَدْرِه”
(تاج العروس من جواهر القاموس، للزبيدي)

ترجمہ:
"اہل کتاب کی تکفیر یہ ہے کہ کوئی اپنے مالک کے سامنے اپنا سر جھکائے جیسے ہمارے ہاں سلام کیا جاتا ہے۔ اور کہا گیا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اپنا ہاتھ یا دونوں ہاتھ اپنے سینے پر رکھے۔”

📌 یہ تعریف غیر اللہ کے سامنے تعظیم کے لیے ہے، نماز میں اللہ کے لیے نہیں۔

2 – المعجم الوسیط

"(كفر) لسَيِّده انحنى وَوضع يَده على صَدره وطأطأ رَأسه كالركوع تَعْظِيمًا”
(المعجم الوسيط)

ترجمہ:
"اپنے آقا کی تعظیم کے طور پر جھکا اور اپنے ہاتھ کو سینے پر رکھا اور اپنے سر کو رکوع کی مانند جھکا دیا۔”

3 – النهایۃ فی غریب الحدیث (ابن الأثیرؒ)

"والتَّكْفير: هُوَ أَنْ يَنْحَنِيَ الْإِنْسَانُ وَيُطَأْطِئَ رأسَه قَرِيبًا مِنَ الرُّكوع، كَمَا يَفْعل مَنْ يُريد تَعْظِيم صاحِبه”
(النهاية في غريب الحديث والأثر، لابن الأثير)

ترجمہ:
"تکفیر یہ ہے کہ آدمی رکوع کے قریب ہو کر اپنا سر جھکائے، جیسے کوئی اپنے ساتھی کی تعظیم کرنا چاہتا ہے۔”

4 – فصل المقال فی شرح کتاب الأمثال (ابو عبید الاندلسیؒ)

"التكفير هاهنا: الخضوع، وأصله الانحناء الشديد، كما تكفر النصارى لكبارهم”
(فصل المقال في شرح كتاب الأمثال)

ترجمہ:
"یہاں تکفیر سے مراد خضوع ہے، اور اس کی اصل سخت جھکنا ہے، جیسے نصاریٰ اپنے بڑوں کے لیے تکفیر کرتے ہیں۔”

5 – المنجد فی اللغة

"انحنى وَوضع يَده على صَدره وطأطأ رَأسه كالركوع تَعْظِيمًا”
(المنجد في اللغة)

ترجمہ:
"جھکا، اپنے ہاتھ کو سینے پر رکھا اور اپنا سر رکوع کی طرح جھکا دیا تعظیم کے طور پر۔”

6 – علامہ ناصر الدین البانیؒ کی وضاحت

"نهى عن التكفير. وهو وضع اليد على الصدر … فإن الحديث – إن صح – ليس فيه النهي عن التكفير في الصلاة … بل قد يكون العكس؛ … فيكون عليه الصلاة والسلام نهى عن هذا الوضع لغير الله تعالى؛ لما فيه من الخضوع وتعظيم غير الله تعالى. وبهذا يتحقق أن هذا الحديث لا تعلق له بالصلاة مطلقاً”
(أصل صفة صلاة النبي ﷺ، ناصر الدين الألباني)

ترجمہ:
"تکفیر یعنی ہاتھ کو سینے پر رکھنا… اگر حدیث صحیح بھی ہو تب بھی اس میں نماز میں تکفیر سے ممانعت نہیں، بلکہ یہ ممانعت غیر اللہ کے لیے ہے؛ کیونکہ اس میں غیر اللہ کی تعظیم شامل ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس حدیث کا نماز سے کوئی تعلق نہیں۔”

📌 ان تمام نصوص سے واضح ہے کہ لغت میں "تکفیر” غیر اللہ کی تعظیم کے لیے جھکنے اور ہاتھ سینے پر رکھنے کو کہا جاتا ہے، اور یہ ممانعت نماز میں اللہ کے لیے ہاتھ رکھنے پر منطبق نہیں ہوتی۔

الزامی دلائل – احناف کے اپنے ائمہ سے سینے پر ہاتھ رکھنے کا ثبوت

اب ہم بطور الزام احناف کے اپنے اکابر علماء کی تصریحات پیش کرتے ہیں جن میں نماز میں سینے پر ہاتھ رکھنے کا ذکر ہے، تاکہ واضح ہو کہ اس عمل کو مکروہ قرار دینا ان کے اپنے فتاویٰ اور اقوال کے بھی خلاف ہے۔

1 – علامہ ابن عابدین شامیؒ (متوفی 1252ھ)

"وَتَضَعُ الْمَرْأَةُ وَالْخُنْثَى الْكَفَّ عَلَى الْكَفِّ تَحْتَ ثَدْيِهَا … وَفِي بَعْضِهَا عَلَى ثَدْيِهَا. قَالَ فِي الْحِلْيَةِ: وَكَانَ الْأَوْلَى أَنْ يَقُولَ عَلَى صَدْرِهَا كَمَا قَالَهُ الْجَمُّ الْغَفِيرُ، لَا عَلَى ثَدْيِهَا، وَإِنْ كَانَ الْوَضْعُ عَلَى الصَّدْرِ قَدْ يَسْتَلْزِمُ ذَلِكَ”
(رد المحتار على الدر المختار)

ترجمہ:
"عورت اور خنثی ہتھیلی کو ہتھیلی پر رکھ کر اپنے پستان کے نیچے رکھیں … بعض نسخوں میں ہے پستان پر رکھیں۔ ‘الحلیہ’ میں ہے: بہتر یہ ہے کہ کہا جائے سینے پر رکھیں جیسا کہ جم غفیر کا قول ہے، اگرچہ سینے پر رکھنے سے کبھی کلائی کا کچھ حصہ پستان پر آجاتا ہے۔”

📌 سوال یہ ہے کہ اگر سینے پر ہاتھ رکھنا "تکفیر” اور ممنوع عمل ہوتا تو علامہ شامی عورت اور خنثی کو اس کا حکم کیوں دیتے؟

2 – علامہ محمد حیات سندھی حنفیؒ (متوفی 1163ھ)

"أن لوضع الأيدى على الصدور في الصلاة أصلا أصيلا ودليلا جليلا، فلا ينبغى لأهل الإيمان الاستنكاف عنه، وكيف يستنكف المسلم عما ثبت عن رسول الله ﷺ”
(فتح الغفور في وضع الأيدي على الصدور)

ترجمہ:
"نماز میں سینے پر ہاتھ رکھنے کی ایک مضبوط اور واضح دلیل ہے، اس لیے اہل ایمان کو اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے، اور مسلمان اس چیز سے کیسے گریز کرے جس کا ثبوت رسول اللہ ﷺ سے ہو؟”

ان نصوص سے ظاہر ہے کہ خود احناف کے اکابر نے سینے پر ہاتھ رکھنے کے عمل کو جائز اور سنتِ نبوی ﷺ سے ثابت مانا ہے۔

خلاصہ اور نتیجہ

اس مکمل تحقیق سے درج ذیل حقائق سامنے آئے:

  1. امام ابن قیمؒ نے سینے پر ہاتھ رکھنے کو مکروہ نہیں کہا، بلکہ احمد بن اصرم المزنی کا قول نقل کیا اور اس کی دلیل ایک ضعیف روایت سے دی، جسے صیغۂ تمریض سے ذکر کیا۔ خود ابن قیمؒ نے دوسری کتاب میں رسول اللہ ﷺ سے سینے پر ہاتھ رکھنے کا عمل نقل کیا ہے۔

  2. امام احمدؒ پر مکروہ کا قول سنداً ثابت نہیں، کیونکہ اس کی سند میں مجہول راوی موجود ہے۔ بیٹے عبداللہ بن احمدؒ کی روایت اور دیگر شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ناف کے اوپر، یعنی سینے کے قریب ہاتھ رکھتے تھے۔

  3. "تکفیر” کا لغوی و شرعی معنی غیر اللہ کے سامنے تعظیم کے لیے جھکنا اور ہاتھ سینے پر رکھنا ہے، اس کا نماز میں اللہ کے لیے ہاتھ رکھنے سے کوئی تعلق نہیں۔

  4. احناف کے اپنے اکابر علماء نے سینے پر ہاتھ رکھنے کو جائز بلکہ سنتِ نبوی ﷺ سے ثابت مانا ہے، جن میں علامہ ابن عابدین شامیؒ اور علامہ محمد حیات سندھیؒ شامل ہیں۔

📌 نتیجہ:
نماز میں سینے پر ہاتھ رکھنے کو مکروہ کہنا نہ امام ابن قیمؒ اور نہ امام احمدؒ سے ثابت ہے۔ یہ عمل سنت سے ثابت اور جائز ہے، اور "تکفیر” کی ممانعت کا تعلق صرف غیر اللہ کے لیے تعظیم میں جھکنے سے ہے، نماز میں اللہ کے لیے نہیں۔

اہم حوالاجات کے سکین

نماز میں سینے پر ہاتھ: امام ابن قیمؒ اور امام احمدؒ سے منسوب اقوال کا تحقیقی جائزہ – 01 نماز میں سینے پر ہاتھ: امام ابن قیمؒ اور امام احمدؒ سے منسوب اقوال کا تحقیقی جائزہ – 02 نماز میں سینے پر ہاتھ: امام ابن قیمؒ اور امام احمدؒ سے منسوب اقوال کا تحقیقی جائزہ – 03 نماز میں سینے پر ہاتھ: امام ابن قیمؒ اور امام احمدؒ سے منسوب اقوال کا تحقیقی جائزہ – 04 نماز میں سینے پر ہاتھ: امام ابن قیمؒ اور امام احمدؒ سے منسوب اقوال کا تحقیقی جائزہ – 05 نماز میں سینے پر ہاتھ: امام ابن قیمؒ اور امام احمدؒ سے منسوب اقوال کا تحقیقی جائزہ – 06 نماز میں سینے پر ہاتھ: امام ابن قیمؒ اور امام احمدؒ سے منسوب اقوال کا تحقیقی جائزہ – 07 نماز میں سینے پر ہاتھ: امام ابن قیمؒ اور امام احمدؒ سے منسوب اقوال کا تحقیقی جائزہ – 08 نماز میں سینے پر ہاتھ: امام ابن قیمؒ اور امام احمدؒ سے منسوب اقوال کا تحقیقی جائزہ – 09 نماز میں سینے پر ہاتھ: امام ابن قیمؒ اور امام احمدؒ سے منسوب اقوال کا تحقیقی جائزہ – 10 نماز میں سینے پر ہاتھ: امام ابن قیمؒ اور امام احمدؒ سے منسوب اقوال کا تحقیقی جائزہ – 11 نماز میں سینے پر ہاتھ: امام ابن قیمؒ اور امام احمدؒ سے منسوب اقوال کا تحقیقی جائزہ – 12 نماز میں سینے پر ہاتھ: امام ابن قیمؒ اور امام احمدؒ سے منسوب اقوال کا تحقیقی جائزہ – 13 نماز میں سینے پر ہاتھ: امام ابن قیمؒ اور امام احمدؒ سے منسوب اقوال کا تحقیقی جائزہ – 14 نماز میں سینے پر ہاتھ: امام ابن قیمؒ اور امام احمدؒ سے منسوب اقوال کا تحقیقی جائزہ – 15

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے