راوی حدیث نافع بن محمود بن الربیع کی توثیق اور اس پر مجہول ہونے کے اعتراضات کا تحقیقی جائزہ
مرتب کردہ: ابو حمزہ سلفی

اہل علم کے نزدیک حدیث کی صحت و ضعف کا فیصلہ راویوں کی توثیق اور تضعیف کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ سے ایک ثقہ تابعی راوی نافع بن محمود بن الربیع الانصاری پر بعض لوگوں کی جانب سے ’’مجہول‘‘ ہونے کا اعتراض سامنے آیا ہے۔ اس مضمون میں ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم نافع بن محمود بن الربیع کے متعلق مستند محدثین سے کی گئی توثیقات کو واضح طور پر پیش کریں اور اس راوی پر عائد کیے گئے ’’مجہول‘‘ ہونے کے اعتراض کو علمی اور تحقیقی طور پر رد کریں۔

ہماری تحقیق سے یہ ثابت ہوگا کہ نافع بن محمود نہ صرف یہ کہ ثقہ و معتبر ہیں بلکہ انہیں مجہول کہنا سراسر علمی غلطی ہے۔

اس مضمون میں پہلے مرحلے پر نافع بن محمود بن الربیع کی توثیقات کو واضح حوالوں کے ساتھ پیش کریں گے اور پھر ’’مجہول‘‘ ہونے کے دعوے کا علمی و تحقیقی جواب دیں گے۔

محدثین کی جانب سے نافع بن محمود بن الربیع کی توثیقات کا ذکر

① امام دارقطنی (متوفی 385ھ) کی توثیق:

امام دارقطنی نے اپنی مشہور کتاب سنن الدارقطنی میں نافع بن محمود کی سند سے ایک روایت ذکر کرنے کے بعد اس پر واضح الفاظ میں توثیق کا حکم لگایا ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:

روایت کا متن:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«فلا تقرؤوا بشیء من القرآن إذا جهرتُ إلا بأم القرآن»
’’جب میں بلند آواز سے قرآن پڑھ رہا ہوں تو تم سورہ فاتحہ کے علاوہ کچھ نہ پڑھو۔‘‘

اس روایت کے متعلق امام دارقطنی نے فرمایا:
«هذا إسناد حسن ورجاله ثقات كلهم» (سنن الدارقطني حدیث:1220)

اسی روایت کو نافع بن محمود سے ان کے تین ثقہ شاگردوں نے روایت کیا ہے:

  • حرام بن حکیم الانصاری (ثقہ)

  • مکحول بن ابی مسلم الشامی (ثقہ)

  • عثمان بن ابی سودہ المقدسی (ثقہ)

امام دارقطنی کے اس حکم سے واضح ہے کہ ان کے نزدیک نافع بن محمود ثقہ راوی ہیں۔

② حافظ ابن حزم الاندلسی (متوفی 456ھ) کی توثیق:

حافظ ابن حزم نے اپنی معروف کتاب المحلی بالآثار میں لکھا ہے کہ مقتدی امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھے۔ پھر انہوں نے نافع بن محمود کی روایت ذکر کرتے ہوئے اس کی توثیق فرمائی ہے:

عربی عبارت:
وَأَمَّا رِوَايَةُ مَكْحُولٍ هَذَا الْخَبَرَ مَرَّةً عَنْ مَحْمُودٍ وَمَرَّةً عَنْ نَافِعِ بْنِ مَحْمُودٍ فَهَذَا قُوَّةٌ لِلْحَدِيثِ لَا وَهْنٌ؛ لِأَنَّ كِلَيْهِمَا ثِقَةٌ.
(المحلى بالآثار، مسئلہ نمبر:360)

ترجمہ:
’’مکحول کا اس حدیث کو ایک مرتبہ محمود بن ربیع اور دوسری مرتبہ نافع بن محمود سے روایت کرنا حدیث کی تقویت ہے، کمزوری نہیں؛ کیونکہ یہ دونوں راوی ثقہ ہیں۔‘‘

اس واضح حکم سے معلوم ہوا کہ حافظ ابن حزم کے نزدیک نافع بن محمود بن الربیع ثقہ راوی ہیں۔

③ امام ابو بکر البیہقی (متوفی 458ھ) کی توثیق:

امام بیہقی نے اپنی مشہور تصنیف "القراءة خلف الإمام” میں نافع بن محمود کی روایت کو نقل کرنے کے بعد فرمایا:

عربی عبارت:
وَهَذَا إِسْنَادٌ صَحِيحٌ وَرُوَاتُهُ ثِقَاتٌ
(القراءة خلف الإمام للبيهقي، حدیث نمبر:121)

اسی طرح سنن الکبریٰ میں بھی نافع بن محمود کی روایت ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

عربی عبارت:
وَالْحَدِيثُ صَحِيحٌ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
(السنن الکبری للبیہقی، حدیث نمبر:2921)

یہ واضح توثیق ظاہر کرتی ہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ کی نظر میں بھی نافع بن محمود ثقہ راوی ہیں۔

④ حافظ ذہبی (متوفی 748ھ) کی توثیق:

حافظ ذہبی نے اپنی کتاب "تنقيح التحقيق في أحاديث التعليق” میں نافع بن محمود کی روایت کے متعلق لکھا:

عربی عبارت:
وصَحّحَ إسنادهُ. ورواهُ بلفظٍ آخرَ: «لا تقرءوا إذا جهرتُ إلا بأمِّ القرآن» وإسنادهُ ثقاتٌ.
(تنقيح التحقيق في أحاديث التعليق، مسئلہ:125)

ترجمہ:
"دارقطنی نے اس روایت کی سند کو صحیح کہا ہے اور دوسری روایت کے الفاظ ہیں: (جب میں بلند آواز سے قراءت کروں تو تم سورہ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھو)، اس کے راوی بھی ثقہ ہیں۔”

نیز حافظ ذہبی نے اپنی دوسری مشہور کتاب "الکاشف فی معرفة من لہ روایة فی الکتب الستة” میں براہِ راست نافع بن محمود بن الربیع کو ثقہ کہا ہے:

عربی عبارت:
نافع بن محمود المقدسي عن عبادة بن الصامت وعنه مكحول وحرام بن حكيم ثقة
(الکاشف:5787)

یہ عبارت واضح طور پر حافظ ذہبی سے نافع بن محمود کی صریح توثیق ہے۔

⑤ حافظ ابن حجر عسقلانی (متوفی 852ھ) کی رائے اور اس کی وضاحت:

حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب "تقريب التهذيب” میں نافع بن محمود کو تیسرے طبقے کے مستور راویوں میں شمار کیا:

عربی عبارت:
نافع بن محمود بن الربيع الأنصاري المقدسي: مستور، من الثالثة۔
(تقريب التهذيب:7082)

یہاں مستور سے مراد مجہول الحال نہیں، بلکہ حافظ ابن حجر نے خود تیسرے طبقے کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:

عربی عبارت:
الثالثة: من أُفرِدَ بصفة كثقة، أو متقن، أو ثبت، أو عدل.
(تقريب التهذيب: مقدمہ)

ترجمہ:
تیسرا طبقہ ان راویوں کا ہے جنہیں محدثین نے "ثقہ”، "ثبت”، یا "عدل” جیسے الفاظ سے خاص کیا ہو۔

اس تصریح سے واضح ہوگیا کہ حافظ ابن حجر کے نزدیک نافع بن محمود کم از کم "عدل و ثقہ” راوی ہیں۔

⑥ امام حاکم ابو عبداللہ نیسابوری (متوفی 405ھ) کی توثیق:

امام حاکم نے اپنی مشہور کتاب "المستدرک علی الصحیحین” میں نافع بن محمود کی ایک روایت نقل کرنے کے بعد اس پر واضح طور پر صحت کا حکم لگایا ہے۔

عربی عبارت:
هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ۔
(المستدرک علی الصحیحین: 2335)

ترجمہ:
یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اور اس کو (بخاری و مسلم) نے روایت نہیں کیا۔

امام حاکم کا اس روایت کی سند کو صحیح کہنا اس امر کی دلیل ہے کہ وہ نافع بن محمود کو ثقہ اور قابلِ اعتبار سمجھتے ہیں کیونکہ محدثین کے نزدیک کسی سند کی صحت کا اعلان تبھی ممکن ہوتا ہے جب اس کے تمام راوی ثقہ ہوں۔

⑦ حافظ ابن حبان (متوفی 354ھ) کی صریح توثیق:

حافظ ابن حبان نے بھی نافع بن محمود کو اپنی مشہور کتاب "کتاب الثقات” میں ذکر کرکے ان کی واضح طور پر توثیق کی ہے:

عربی عبارت:
نافع بن محمود بن ربيعة، من أهل إيلياء، يروي عن عبادة بن الصامت، روى عنه حزام بن حكيم ومكحول۔
(الثقات لابن حبان: 5770)

ترجمہ:
نافع بن محمود بن ربیعہ، ایلیاء (بیت المقدس) کے رہنے والے ہیں، عبادہ بن الصامت سے روایت کرتے ہیں، ان سے حزام بن حکیم اور امام مکحول نے روایت کی ہے۔

حافظ ابن حبان کی طرف سے کتاب الثقات میں کسی راوی کا ذکر واضح طور پر اس راوی کی توثیق ہوتی ہے۔

⑧ امام ابو عبداللہ القرطبی (متوفی 671ھ) کی جانب سے توثیق:

امام ابو عبداللہ القرطبی نے اپنی مشہور تفسیر "الجامع لأحکام القرآن” میں سورہ فاتحہ کے ذیل میں امام کے پیچھے مقتدی کے سورہ فاتحہ پڑھنے کے حوالے سے نافع بن محمود کی روایت کو بطور دلیل ذکر کیا ہے اور اسے واضح نص قرار دیا ہے۔

عربی عبارت:
وَمِنَ الْحُجَّةِ فِي ذَلِكَ أَيْضًا مَا رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ عَنْ نَافِعِ بْنِ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ الْأَنْصَارِيِّ… فَلَا تَقْرَءُوا بِشَيْءٍ مِنَ الْقُرْآنِ إِذَا جَهَرْتُ إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ، وَهَذَا نَصٌّ صَرِيحٌ فِي الْمَأْمُومِ۔
(تفسير القرطبي، سورة الفاتحة)

ترجمہ:
اس مسئلے میں یہ روایت بھی دلیل ہے جو ابو داود نے نافع بن محمود بن الربیع انصاری سے روایت کی ہے… جب میں (امام) بلند آواز سے تلاوت کروں تو سورہ فاتحہ کے سوا کچھ نہ پڑھو، اور یہ روایت مقتدی کے لیے واضح نص ہے۔

امام قرطبی کا اس روایت کو اپنی دلیل بنانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ نافع بن محمود کو ثقہ مانتے ہیں، کیونکہ محدثین کے نزدیک ضعیف راوی کی روایت قابلِ حجت نہیں ہوتی۔

⑨ امام ابو داود سجستانی (متوفی 275ھ) کی طرف سے توثیق:

امام ابو داود نے اپنی سنن میں نافع بن محمود کی روایت کو اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے اور اس پر کوئی جرح نقل نہیں کی، بلکہ سکوت فرمایا۔ امام ابو داود کا سکوت فرمانا روایت کی صحت و توثیق کی دلیل ہے۔

عربی عبارت:
حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَزْدِيُّ،… عَنْ نَافِعِ بْنِ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ نَافِعٌ: أَبْطَأَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ… فَلَا تَقْرَءُوا بِشَيْءٍ مِنَ الْقُرْآنِ إِذَا جَهَرْتُ إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ۔
(سنن أبي داود: 824)

امام ابو داود کا اپنا اصول (خود ان کے بقول):
الْمَسْكُوتُ عَنْهُ صَالِحٌ۔
(رسالۃ الإمام أبي داود إلى أهل مكة)

ترجمہ:
جس روایت پر میں نے سکوت اختیار کیا ہے وہ روایت صحیح (یا کم از کم حسن) ہے۔

ابن الہمام حنفی (متوفی 861ھ) اس اصول کی وضاحت میں فرماتے ہیں:
وَسُكُوتُ أَبِي دَاوُدَ تَصْحِيحٌ أَوْ تَحْسِينٌ مِنْهُ۔
(فتح القدير لابن الهمام)

ترجمہ:
امام ابو داود کا کسی روایت پر سکوت فرمانا ان کی جانب سے اس روایت کی توثیق یا کم از کم تحسین ہوتی ہے۔

اس سے واضح ہوتا ہے کہ امام ابو داود کی جانب سے نافع بن محمود کی روایت پر سکوت اس راوی کی توثیق پر محمول ہے۔

⑩ امام ضیاء الدین المقدسی (متوفی 643ھ) کی طرف سے توثیق:

امام ضیاء الدین المقدسی نے اپنی کتاب "الاحادیث المختارۃ” میں نافع بن محمود کی روایت کو شامل کیا ہے۔ واضح رہے کہ امام مقدسی کی اس کتاب میں صرف وہی روایات شامل ہیں جو ان کے نزدیک "صحیح” ہیں۔ اس کتاب میں کسی راوی کی روایت کا شامل ہونا اس راوی کی ثقاہت پر واضح دلیل ہے۔

عربی عبارت:
نَافِعُ بْنُ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ الأَنْصَارِيُّ عَنْ عُبَادَة إِسْنَادُهُ صَحِيحٌ…
(الأحاديث المختارة: 421)

ترجمہ:
نافع بن محمود بن الربیع انصاری کی عبادہ بن صامت سے روایت کی سند صحیح ہے۔

مزید برآں علامہ ظفر احمد عثمانی تھانوی (حنفی دیوبندی) اس کتاب کی تمام احادیث کے بارے میں فرماتے ہیں:

"وأحاديث الضياء في المختارة كلها صحاح، كما صرح به السيوطي في خطبة كنز العمال”
(إعلاء السنن للتهانوي)

ترجمہ:
المختارہ میں امام ضیاء الدین مقدسی کی تمام روایات صحیح ہیں، جیسا کہ علامہ سیوطی نے کنز العمال کے مقدمے میں صراحت فرمائی ہے۔

اسی طرح امام زین الدین العراقی (متوفی 806ھ) شرح ابن الصلاح میں فرماتے ہیں:

"جمع الضياء المقدسي كتابا سماه المختارة التزم فيه الصحة، وذكر فيه أحاديث لم يُسبق إلى تصحيحها فيما أعلم.”
(التقييد والإيضاح شرح مقدمة ابن الصلاح)

ترجمہ:
امام ضیاء المقدسی نے المختارہ نامی کتاب جمع کی جس میں صحت کا التزام کیا ہے اور ایسی احادیث کو بھی صحیح قرار دیا ہے جنہیں ان سے پہلے کسی نے صحیح نہیں کہا۔

امام ضیاء المقدسی کا نافع بن محمود کی روایت کو "المختارہ” میں شامل کرنا ان کے نزدیک اس راوی کی ثقاہت و قبولیت کی زبردست دلیل ہے۔

خلاصۂ بحث (توثیق کرنے والے تمام ائمہ کا اجمالی ذکر):

اب تک کی تحقیق میں نافع بن محمود بن الربیع کی ثقاہت درج ذیل محدثین سے ثابت ہوئی ہے:

  • امام دارقطنی (سنن دارقطنی میں تصریح کی)

  • حافظ ابن حزم (المحلیٰ میں واضح ثقہ فرمایا)

  • امام بیہقی (سنن الکبری اور القراءة خلف الإمام میں تصریح)

  • حافظ ذہبی (الکاشف و تنقیح التحقیق میں تصریح)

  • امام حاکم (المستدرک میں صحیح الإسناد قرار دیا)

  • امام ابن حبان (الثقات میں شامل کیا)

  • امام ابو عبداللہ قرطبی (تفسیر القرطبی میں حجت مانا)

  • امام ابو داود سجستانی (سنن ابی داود میں سکوت فرمایا جو تصحیح ہے)

  • امام ضیاء الدین المقدسی (الاحادیث المختارۃ میں صحیح فرمایا)

  • ابن مفلح حنبلی نے بھی توثیق بیان فرمائی۔

ان دس جلیل القدر ائمہ حدیث کی واضح اور صریح توثیقات کی روشنی میں نافع بن محمود بن الربیع کو "مجہول” کہنا یا ان کی روایت کو ضعیف کہنا قطعاً بے بنیاد اور علمی اصولوں کے خلاف ہے۔

نافع بن محمود بن الربیع پر "مجہول” ہونے کے اعتراضات کا علمی جائزہ اور رد

مذکورہ بالا تحقیق کے بعد اب ان اعتراضات کی حقیقت واضح کی جائے گی جن میں نافع بن محمود کو "مجہول” کہا گیا ہے۔ اس حوالے سے تین اعتراضات کیے گئے ہیں:

پہلا اعتراض: (امام طحاوی سے منسوب قول کا جائزہ)

بعض حضرات نے امام ابو جعفر الطحاوی (متوفی 321ھ) کی کتاب "أحكام القرآن” سے یہ قول نقل کیا:

عربی عبارت:
وَلَيْسَ نَافِعُ بْنُ مَحْمُودٍ بِمَعْرُوفٍ
(أحكام القرآن للطحاوي، منسوب)

ترجمہ: نافع بن محمود معروف نہیں ہے۔

اس اعتراض کا رد:

یہ کتاب (أحكام القرآن للطحاوي) امام طحاوی کی طرف منسوب ہے اور اس کی کوئی سند یا مستند نسخہ دستیاب نہیں، لہذا یہ قول مشکوک و غیر معتبر ہے۔

مزید برآں، امام طحاوی جرح و تعدیل کے امام نہیں تھے، بلکہ انہوں نے خود واضح فرمایا ہے:

"فما أردتُ بشيء من ذلك تضعيفَ أحدٍ من أهل العلم، وما هكذا مذهبي.”
(شرح معاني الآثار، الطحاوي)

ترجمہ:
میں اہلِ علم (محدثین) میں سے کسی کو ضعیف کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا، اور یہ میرا طریقہ ہی نہیں۔

پس امام طحاوی کی طرف اس قول کی نسبت قطعاً بے وزن اور مردود ہے۔

دوسرا اعتراض: (ابو بکر الجصاص معتزلی کا قول)

معتزلی فکر سے متاثر ابو بکر الجصاص (متوفی 370ھ) نے بھی لکھا:

عربی عبارت:
نَافِعُ بْنُ مَحْمُودٍ هَذَا مَجْهُولٌ لَا يُعْرَفُ
(أحكام القرآن للجصاص)

 اس اعتراض کا رد:

  • جصاص معتزلی فکر کا حامل تھا، جس کی وجہ سے محدثین نے اسے مستند نا سمجھا۔

  • امام ذہبی نے بھی جصاص کے معتزلی رجحانات کی تصریح کی ہے:

    "كَانَ يَمِيلُ إِلَى الِاعْتِزَالِ، نَسْأَلُ اللهَ السَّلَامَةَ”
    (سير أعلام النبلاء)

ایسے معتزلی اور ضعیف الاعتقاد شخص کی جرح، وہ بھی اتنے ثقہ و معروف راوی کے خلاف ہرگز قابل قبول نہیں۔

تیسرا اعتراض: (ابن عبدالبر کا قول)

ابن عبدالبر (متوفی 463ھ) نے بھی نافع بن محمود کو "مجہول” کہا ہے:

عربی عبارت:
نَافِعُ بْنُ مَحْمُودٍ هَذَا مَجْهُولٌ
(التمهيد لابن عبد البر)

اس اعتراض کا رد:

یہ اعتراض غلط فہمی یا عدمِ تحقیق پر مبنی ہے۔ اس کے جوابات درج ذیل ہیں:

جواب اول:

ابن القطان الفاسی (متوفی 628ھ) نے خود ابن عبدالبر ہی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے بعد میں نافع بن محمود کو ثقہ تسلیم کر لیا تھا:

"وقال فيه أبو عمر: مجهول، وهو قد سمع مخرج الحديث من طريقه يقول فيه: إنه ثقة.”
(بيان الوهم والإيهام لابن القطان)

ترجمہ:
ابو عمر (ابن عبدالبر) نے پہلے اسے مجہول کہا مگر بعد میں اسی راوی کو ثقہ تسلیم کیا۔

یہ واضح رجوع ہے۔

جواب دوم:

ابن مفلح حنبلی (متوفی 884ھ) نے ابن عبدالبر کی جرح کو غلط قرار دیتے ہوئے لکھا ہے:

"وَقَالَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ: نَافِعُ بْنُ مَحْمُودٍ مَجْهُولٌ وَلَيْسَ كَذَلِكَ فَإِنَّهُ يَرْوِي عَنْهُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الثِّقَاتِ وَوَثَّقَهُ ابْنُ حِبَّانَ وَلَمْ أَجِدْ فِيهِ جَرْحًا.”
(النكت والفوائد السنية لابن مفلح)

ترجمہ:
ابن عبدالبر نے نافع بن محمود کو مجہول کہا ہے مگر یہ غلط ہے کیونکہ اس سے کئی ثقہ راویوں نے روایت کی ہے اور ابن حبان نے اس کی توثیق بھی کی ہے۔

جواب سوم:

ابن عبدالبر کی اصطلاح کے مطابق مجہول کا مطلب "مجہول العین” ہوتا ہے جس سے صرف ایک شاگرد روایت کرتا ہو۔
(التمهيد لابن عبد البر)

جبکہ نافع بن محمود سے تین ثقہ تلامذہ (حرام بن حکیم، مکحول، عثمان بن ابی سودہ) نے روایتیں نقل کی ہیں۔ لہٰذا "مجہول العین” ہونے کا الزام بھی غلط ثابت ہوگیا۔

نتیجہ اور حاصلِ تحقیق:

  • نافع بن محمود بن الربیع کو "مجہول” کہنے والوں کے اعتراضات علمی طور پر رد ہوگئے۔

  • نافع بن محمود کی 10 سے زائد کبار محدثین نے ثقاہت ثابت کی ہے، جن میں دارقطنی، ذہبی، ابن حبان، حاکم، ابو داود، ابن حزم، بیہقی اور امام مقدسی شامل ہیں۔

  • ابن عبدالبر نے بھی بعد میں رجوع کرلیا تھا۔

  • نافع بن محمود بن الربیع ثقہ راوی ہیں اور ان کی روایت صحیح یا حسن کے درجے سے کم نہیں۔

لہٰذا اس راوی پر "مجہول” کا اعتراض علمی اعتبار سے ساقط الاعتبار ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

اہم حوالاجات کے سکرین شاٹس

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے