نماز کے دوران تشہد میں شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنا نبی ﷺ کی سنت ہے جس پر متعدد صحیح احادیث موجود ہیں۔ یہ سنت نہ صرف نبی کریم ﷺ سے متواتر ثابت ہے بلکہ صحابہ کرام کے عمل سے بھی اس کی توثیق ہوتی ہے۔
اس کے باوجود فقہ حنفی کے متقدمین علماء (زیلعی حنفی سے پہلے) نے اس سنت کا انکار کیا، بعض نے اس کو مکروہ قرار دیا اور اسے ترک کرنے پر اصرار کیا۔ اس مضمون میں ہم:
✅ رفعِ سبابہ کے حق میں موجود صحیح احادیث
✅ صحابہ کرام کے عمل
✅ متقدمین و متاخرین ائمہ مجتہدین کی تصریحات
✅ اور فقہ حنفی کے اندرونی تضادات
… تفصیل سے پیش کریں گے۔
════════════════════════
1. حدیث عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ (صحیح مسلم)
════════════════════════
🔸 عربی متن:
«كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا قَعَدَ فِي الصَّلَاةِ، جَعَلَ قَدَمَهُ الْيُسْرَى بَيْنَ فَخِذِهِ وَسَاقِهِ، وَفَرَشَ قَدَمَهُ الْيُمْنَى، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُسْرَى، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى، وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ»
📘 [صحیح مسلم، حدیث 579]
🔹 اردو ترجمہ:
رسول اللہ ﷺ جب نماز میں بیٹھتے تو اپنا بایاں پاؤں ران اور پنڈلی کے درمیان رکھتے، دایاں پاؤں بچھا لیتے، بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر اور دایاں ہاتھ دائیں ران پر رکھتے اور اپنی انگلی سے اشارہ کرتے۔
🔸 اس حدیث میں "أشار بأصبعه” کے الفاظ واضح طور پر شہادت کی انگلی کے اشارے پر دلالت کرتے ہیں۔
════════════════════════
2. حدیث عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ (دوسرا طریق)
════════════════════════
🔸 عربی متن:
«كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا قَعَدَ يَدْعُو، وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى، وَيَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى، وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ، وَوَضَعَ إِبْهَامَهُ عَلَى إِصْبَعِهِ الْوُسْطَى، وَيُلْقِمُ كَفَّهُ الْيُسْرَى رُكْبَتَهُ»
📘 [صحیح مسلم، حدیث 579]
🔹 اردو ترجمہ:
رسول اللہ ﷺ جب بیٹھ کر دعا کرتے تو دایاں ہاتھ دائیں ران پر، بایاں ہاتھ بائیں ران پر رکھتے، اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے۔ انگوٹھے کو درمیانی انگلی پر رکھتے اور بائیں ہتھیلی کو گھٹنے پر جماتے۔
🔸 یہاں بھی "أشار بإصبعه السبابة” کے الفاظ شہادت کی انگلی کے استعمال کو ثابت کرتے ہیں۔
📍 یہ دونوں روایات صحیح مسلم میں متفق طور پر موجود ہیں اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں، جو خود صحابی اور نبی ﷺ کے قریبی تھے۔
════════════════════════
3. حدیث عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ
════════════════════════
🔸 عربی متن:
«كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا جَلَسَ فِي الصَّلَاةِ وَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، وَرَفَعَ إِصْبَعَهُ الْيُمْنَى الَّتِي تَلِي الْإِبْهَامَ، فَدَعَا بِهَا وَيَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى رُكْبَتِهِ بَاسِطَهَا عَلَيْهَا»
📘 [صحیح مسلم، حدیث 580]
🔹 اردو ترجمہ:
رسول اللہ ﷺ جب نماز میں بیٹھتے تو اپنے دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے، اور دایاں انگوٹھے کے پاس والی انگلی (یعنی شہادت کی انگلی) اٹھا کر دعا کرتے، جبکہ بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر پھیلا ہوا ہوتا۔
📍 یہ روایت دعائیہ اشارہ کی صریح دلیل ہے، جس میں رفع سبابہ کا ذکر واضح ہے۔
════════════════════════
4. حدیث وائل بن حجر رضی اللہ عنہ
════════════════════════
🔸 عربی متن:
«ثُمَّ قَبَضَ اثْنَتَيْنِ مِنْ أَصَابِعِهِ، وَحَلَّقَ حَلْقَةً، ثُمَّ رَفَعَ إِصْبَعَهُ، فَرَأَيْتُهُ يُحَرِّكُهَا يَدْعُو بِهَا»
📘 [سنن النسائی، المجتبى، حدیث 889]
🔹 اردو ترجمہ:
نبی کریم ﷺ نے دو انگلیاں بند کیں، ایک حلقہ بنایا اور پھر انگلی اٹھائی۔ میں نے دیکھا کہ آپ اسے حرکت دیتے تھے اور اس سے دعا کرتے تھے۔
✅ اس روایت میں نہ صرف انگلی اٹھانا بلکہ اسے حرکت دینا بھی مذکور ہے، جو سنت کا مزید مؤکد ثبوت ہے۔
🔎 سند کی تصحیح:
اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں، جیسے کہ:
-
عبد الله بن المبارک
-
زائدة بن قدامة
-
عاصم بن کلیب
-
کلیب بن شهاب
-
وائل بن حجر (صحابی)
════════════════════════
5. حدیث ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ
════════════════════════
🔸 عربی متن:
«وَوَضَعَ كَفَّهُ الْيُمْنَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُمْنَى، وَكَفَّهُ الْيُسْرَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُسْرَى، وَأَشَارَ بِأُصْبُعِهِ – يَعْنِي السَّبَّابَةَ -»
📘 [جامع الترمذی، حدیث 293، وقال: حدیث حسن صحیح]
🔹 اردو ترجمہ:
نبی کریم ﷺ نے دائیں ہتھیلی دائیں گھٹنے پر، بائیں ہتھیلی بائیں گھٹنے پر رکھی، اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا۔
📍 واضح ہے کہ یہ سنت ایک صحابی نہیں بلکہ جماعت صحابہ کی مشترکہ شہادت سے ثابت ہے، کیونکہ اس روایت میں ابوحمید، ابواسید، سہل بن سعد، محمد بن مسلمہ سب موجود تھے۔
════════════════════════
ائمہ اربعہ کا موقف: امام مالک، امام احمد، امام ابن عبدالبر
════════════════════════
1. امام مالک رحمہ اللہ کا عمل (نقل: ابن القاسم و اللخمی)
🔸 عربی متن:
قال ابن القاسم: رأيت مالكًا يحرك السبابة في التشهد مُلِحًّا
📘 [التبصرة للخمی، ابو الحسن اللخمی المالکی، متوفی 478ھ]
🔹 اردو ترجمہ:
ابن القاسم کہتے ہیں: میں نے امام مالک کو دیکھا کہ وہ تشہد میں شہادت کی انگلی کو مسلسل حرکت دیتے تھے۔
دوسری نقل (بیان و تحصیل):
قال ابن القاسم: رأيت مالكًا إذا صلى الصبح يدعو ويحرك أصبعه التي تلي الإبهام
📘 [البيان والتحصيل، ابن رشد القرطبی، متوفی 520ھ]
🔹 اردو ترجمہ:
میں نے امام مالک کو دیکھا، جب وہ فجر کی نماز میں دعا کرتے تو انگوٹھے کے قریب والی انگلی کو حرکت دیتے۔
📍 یہ دونوں نقلیں امام مالک کی عملی سنت کو ثابت کرتی ہیں۔
2. امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا فتوی (روایت ابن ہانی)
🔸 عربی متن:
سُئِلَ: هل يشير الرجل بإصبعه في الصلاة؟
قال: نعم، شديدًا.
📘 [مسائل الإمام أحمد برواية ابن هاني، متوفی 275ھ]
🔹 اردو ترجمہ:
سوال کیا گیا: کیا نماز میں انگلی سے اشارہ کرنا چاہیے؟
فرمایا: ہاں، شدت سے کرے۔
📍 امام احمد کا یہ واضح فتوی رفع سبابہ کے حق میں ہے۔
3. امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کا تجزیہ (الاستذکار)
🔸 عربی متن:
وَكُلُّ ذَلِكَ مَرْوِيٌّ فِي الْآثَارِ الصِّحَاحِ الْمُسْنَدَةِ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، وَجَمِيعُهُ مُبَاحٌ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ
📘 [الاستذكار، ابن عبدالبر، متوفی 463ھ]
🔹 اردو ترجمہ:
یہ دونوں عمل (اشارہ کرنا اور نہ کرنا) نبی کریم ﷺ سے صحیح اور متصل اسانید کے ساتھ ثابت ہیں، اور یہ دونوں جائز ہیں، والحمد للہ۔
📍 امام ابن عبدالبر نے علمی دیانت کے ساتھ تمام روایات کو جمع کر کے واضح فرمایا کہ رفع سبابہ سنت اور جائز عمل ہے۔
════════════════════════
فقہ حنفی اور رفع سبابہ کی فقاہتی تاریخ
════════════════════════
1. امام محمد بن حسن الشیبانی کا فتویٰ
امام ابو حنیفہ کے شاگرد، امام محمد سے رفع سبابہ کے جواز کا فتویٰ منقول ہے، لیکن بعد میں آنے والے حنفی متقدمین نے اس کو ترک کر دیا۔
📌 نوٹ تحقیق:
امام محمد بن حسن الشیبانی، امام ابو حنیفہ کے شاگرد ضرور تھے، لیکن ان کی تمام فروع و اصول میں موافقت نہیں تھی۔ کئی اصولی مسائل میں ان کا اپنے استاد سے اختلاف معروف ہے۔
📎 دلیل:
ابن عدی، ابن عبدالبر، اور دیگر ائمہ کی تصریحات کے مطابق امام محمد کا مسلک مستقل اجتہادی مقام رکھتا ہے، وہ امام مالک اور امام شافعی سے بھی براہ راست مستفید ہوئے۔
2. علامہ زیلعی حنفی (متوفی 743ھ) کا انقلابی موقف
🔸 علامہ زیلعی نے صحیح احادیث کی روشنی میں رفع سبابہ کے جواز کا فتویٰ دیا، جو کہ حنفی متقدمین کے برخلاف تھا۔
📍 ان کے بعد آنے والے حنفی متاخرین نے بھی اسی قول کو اپنایا۔
📌 یہ تبدیلی فقہ حنفی کے اندر اجتہاد کا ثبوت ہے، لیکن یہ بھی واضح کرتا ہے کہ کئی صدیوں تک اس سنت کا رد فقہ حنفی کے اندر جاری رہا۔
3. ابن عابدین شامی (متوفی 1252ھ) اور متاخرین کا قول
🔸 عربی متن:
(وَلَا يُشِيرُ بِسَبَّابَتِهِ) وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى… لَكِنَّ الْمُعْتَمَدَ مَا صَحَّحَهُ الشُّرَّاحُ وَلَا سِيَّمَا الْمُتَأَخِّرُونَ… أَنَّهُ يُشِيرُ لِفِعْلِهِ ﷺ، وَنَسَبُوهُ لِمُحَمَّدٍ وَالْإِمَامِ.
📘 [رد المحتار علی الدر المختار]
🔹 اردو ترجمہ:
فتویٰ تو یہ ہے کہ تشہد میں شہادت کی انگلی سے اشارہ نہ کیا جائے، لیکن معتبر قول وہ ہے جو متاخرین شراح نے اختیار کیا کہ اشارہ کیا جائے، کیونکہ نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے اور اس کو امام محمد اور امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔
📍 شامی نے دونوں اقوال کو ذکر کیا، لیکن ترجیح اشارہ کرنے کو دی ہے۔
════════════════════════
فتاویٰ عالمگیری، قاضیانِ حنفیہ اور انکارِ رفع سبابہ
════════════════════════
1. فتاویٰ عالمگیری (500 علما کی متفقہ رائے)
🔸 عربی متن:
وَالْمُخْتَارُ أَنَّهُ لَا يُشِيرُ. كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى… وَكَثِيرٌ مِنْ الْمَشَايِخِ لَا يَرَوْنَ الْإِشَارَةَ وَكَرِهَهَا فِي مُنْيَةِ الْمُفْتِي.
📘 [الفتاوى الهندية، تحت إشراف نظام الدین البلخی]
🔹 اردو ترجمہ:
مُختار قول یہ ہے کہ تشہد میں انگلی سے اشارہ نہ کیا جائے، جیسا کہ خلاصہ میں ہے اور اسی پر فتویٰ ہے۔ اور بہت سے مشائخ اشارہ کو نہیں دیکھتے اور منیت المفتی میں اسے مکروہ کہا گیا ہے۔
📌 یہ واضح فتویٰ اشارہ نہ کرنے اور اس کے مکروہ ہونے پر ہے۔
2. مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمہ اللہ کا موقف
🔸 اقتباس:
"جب معتبر روایات میں نماز میں انگشت سبابہ سے اشارہ کی حرمت واقع ہو چکی ہے اور مکروہ ہونے پر فتویٰ دیا گیا ہے، تو ان فتاویٰ کے باوجود احناف کا اس عمل کو کرنا حرام و ممنوع ہے۔”
📍 یہ عبارت سخت ترین موقف پر مبنی ہے جو رفع سبابہ کو حرام قرار دیتی ہے، حالانکہ صحیح احادیث اس کے خلاف ہیں۔
📌 حنفیوں کے اس رویے کی بنیاد اندھی تقلید پر ہے، جو سنت کے خلاف جاتی ہے۔
3. قاضی ثناء اللہ پانی پتی (متوفی 1125ھ)
🔸 اقتباس:
"مشہور مذہب امام اعظم کا یہی ہے کہ تشہد میں اشارہ نہیں کیا جائے۔”
📌 قاضی ثناء اللہ پانی پتی بھی اسی تقلیدی موقف کے حامی تھے، حالانکہ جمہور محدثین و فقہاء کی روایات رفع سبابہ کو سنت قرار دیتی ہیں۔
4. علامہ ابن شہاب البزاز الکردری (فتاویٰ بزازیہ)
🔸 اقتباس:
ولا يشير عند قوله أشهد أن لا إله إلا الله في المختار.
📘 [الفتاوى البزازية، البزاز الكردري]
🔹 اردو ترجمہ:
جب "اشهد أن لا إله إلا الله” پڑھے تو انگلی سے اشارہ نہ کرے۔
📍 یہ قول بھی رفع سبابہ کے انکار پر واضح دلیل ہے۔
════════════════════════
علمی تجزیہ، خلاصہ اور رفع سبابہ کا دفاع
════════════════════════
📌 1. رفع سبابہ پر اجماعِ محدثین:
✔ رفع سبابہ کا ذکر صحیح مسلم، سنن نسائی، سنن ترمذی اور دیگر کتبِ حدیث میں موجود ہے۔
✔ اس سنت پر عمل رسول اللہ ﷺ سے مختلف صحابہؓ نے نقل کیا ہے:
-
سیدنا عبداللہ بن زبیر
-
سیدنا عبداللہ بن عمر
-
سیدنا وائل بن حجر
-
سیدنا ابوحُمید الساعدی
-
دیگر صحابہؓ
📌 2. حنفی متقدمین کا انکار کیوں؟
-
متقدمین احناف نے رفع سبابہ کو ترک کیا اور اسے مکروہ یا حرام قرار دیا۔
-
اس کی بڑی وجہ اندھی تقلید، اور حدیث پر عمل کی بجائے رائے و قیاس کو ترجیح دینا تھا۔
-
یہ رویہ امام ابو یوسف، امام محمد اور ان کے بعد آنے والے متعصب متکلمین میں زیادہ نظر آتا ہے۔
📌 3. حنفی متاخرین کا رجوع:
-
علامہ زیلعی (743ھ) نے صحیح احادیث کو بنیاد بنا کر رفع سبابہ کے جواز کا فتویٰ دیا۔
-
ابن عابدین شامی (1252ھ) نے متاخرین کے مؤقف کو ترجیح دی اور عمل رفع سبابہ کو جائز کہا۔
-
امام محمد بن حسن شیبانی سے بھی رفع سبابہ کا جواز ثابت ہے۔
📌 4. نتیجہ:
🔹 رفع سبابہ ایک مستند سنت ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے قولاً و فعلاً ادا فرمایا۔
🔹 متعدد صحابہؓ سے یہ سنت صحیح سند سے منقول ہے۔
🔹 فقہ حنفی کے ابتدائی رویے کو اندھی تقلید پر مبنی قرار دینا پڑے گا، جبکہ بعد کے فقہاء نے حدیث پر رجوع کیا۔
📌 5. نصیحت:
جو عمل نبی کریم ﷺ سے صحیح سند سے ثابت ہو، اور کئی صحابہ نے اسے بیان کیا ہو، اسے ترک کرنا احادیث کا انکار ہے۔
✔ ایسے شخص کو چاہیئے کہ وہ حدیث کی اتباع کرے نہ کہ کسی فقہی گروہ کی اندھی پیروی۔
🟩 اس تحقیق کا نتیجہ:
رفع سبابہ نہ صرف سنت مؤکدہ ہے بلکہ اسے متعدد صحابہؓ نے روایت کیا اور نبی ﷺ کا مستقل عمل تھا۔
احناف کے فقہی رویے پر تنقید بجا ہے جہاں سنت کو مکروہ و حرام تک قرار دیا گیا۔
════════════════════════
اہم حوالاجات کے سکرین شاٹس
════════════════════════