ماں کے پیٹ میں بچے کی تخلیق کا منظر
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان سنایا اور آپ سچوں کے سچے تھے اور آپ کی سچائی کی زبردست گواہی دی گئی ۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
إن أحدكم يجمع فى بطن أمه أربعين يوما ، ثم يكون علقة مثل ذلك ، ثم يكون مضغه مثل ذلك ، ثم يبعث الله ملكا فيؤمر بأربع: برزقه وأجله ، وشقى ، أو سعيد ، فو الله إن أحدكم أو الرجل يعمل بعمل أهل النارحتى ما يكون بينه وبينها غير باع أو ذراع فيسبق عليه الكتاب فيعمل بعمل أهل الجنة فيدخلها ، وإن الرجل ليعمل بعمل أهل الجنة ، حتى ما يكون بينه وبينها غير ذراع ، أو ذراعين فيسبق عليه الكتاب فيعمل بعمل أهل النار فيدخلها
”تم میں سے ہر شخص پہلے اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفہ ہی رکھا جاتا ہے پھر اتنی ہی مدت میں ”علقہ“ یعنی خون کی پھٹکی (جما ہوا خون ) بنتا ہے پھر اتنے ہی عرصہ میں ”مضغہ“ (یعنی گوشت کا لوتھڑا) ۔ پھر چار ماہ بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اس کے بارے میں (ماں کے پیٹ ہی میں ) چار باتوں کے لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے ۔ اس کی روزی کا ، اس کی موت کا ، اس کا کہ وہ بد بخت ہے یا نیک بخت ۔ پس واللہ ، تم میں سے ایک شخص دوزخ والوں کے سے کام کرتا رہتا ہے اور جب اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک بالشت کا فاصلہ یا ایک ہاتھ کا فاصلہ باقی رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر اس پر غالب آتی ہے اور وہ جنت والوں کے سے کام کرنے لگتا ہے اور جنت میں جاتا ہے ۔ اسی طرح ایک شخص جنت والوں کے سے کام کرتا رہتا ہے اور جب اس کے اور جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ باقی رہ جاتا ہے تو اس کی تقدیر اس پر غالب آتی ہے اور وہ دوزخ والوں کے کام کرنے لگتا ہے اور وہ دوزخ میں جاتا ہے ۔“
[بخاري: 6594 ، كتاب القدر ، مسلم: 16/6 ، كتاب القدر: باب كيف خلق الآدمي فى بطن أمه ، احمد: 382/1 ، ابو داود: 4708 ، كتاب السنة: باب فى القدر ، ترمذي: 2137 ، ابن ماجة: 76 ، بيهقي فى شعب الإيمان: 207/1]
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا مر بالنطفة ثنتان وأربعون ليلة ، بعث الله إليها ملكا ، فصورها وخلق سمعها وبصرها وجلدها ولحمها وعظامها ، ثم قال: يارب أذكر أم أنثى؟ فيقضى ربك ما شاء ، ويكتب الملك ، ثم يقول: يا رب أجله؟ فيقضى ربك ما شاء فيكتب الملك ، ثم يقول: يا رب رزقه ! فيقضى ربك ما شاء ويكتل الملك ، ثم يخرج الملك بالصحيفة فى يده ، فلا يزيد على ما أمر ولا ينقص
”جب (ماں کے پیٹ میں) نطفہ کو بیالیس (42) راتیں گذر جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجتے ہیں وہ اس کی صورت بناتا ہے ، اس کے کان ، اس کی آنکھیں ، اس کا چمڑا ، اس کا گوشت اور اس کی ہڈیاں بناتا ہے ۔ پھر کہتا ہے: اے میرے رب! کیا یہ مذکر ہے یا مؤنث؟ تو تیرا رب جو چاہتا ہے فیصلہ فرما دیتا ہے اور فرشتہ وہی لکھ لیتا ہے ۔ پھر وہ کہتا ہے: اے میرے رب! اس کی عمر کتنی ہے؟ تو تیرا رب جو چاہتا ہے فیصلہ فرما دیتا ہے اور فرشتہ وہی لکھ لیتا ہے ۔ پھر وہ کہتا ہے: اس کا رزق کتنا ہے؟ تو تیرا رب جو چاہتا ہے فیصلہ فرما دیتا ہے اور فرشتہ اسے (اس کے رزق کو ) ماپ لیتا ہے ۔ پھر فرشتہ اپنے ہاتھ میں اس صحیفے کو لے کر نکلتا ہے اور جو اسے حکم ملا ہے اس میں نہ کچھ زیادتی کرتا ہے اور نہ کچھ کمی ۔“
اور ایک روایت میں یہ لفظ ہیں کہ :
إن النطفة تقع فى الرحم أربعين ليلة ، ثم يتسور عليه الملك
”بے شک نطفہ رحمِ مادر میں چالیس (40) راتیں پڑا رہتا ہے پھر اس پر فرشتہ اترتا ہے ۔“
[مسلم: 2645 ، كتاب القدر: باب كيفية خلق الآدمى فى بطن أمه وكتابة رزقه وأجله وعمله و شقاوته وسعادته]