بیٹیوں کی اچھی پرورش کے نتیجے میں جنت میں داخلہ
➊ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ :
جاءت امرأة ومعها ابنتان لها تسألني ، فلم تجد عندى شيئا غير تمرة واحد فأعطيتها إياها ، فأخذتها فشقتها بين ابنتيها ولم تأكل منها شيئا ثم قامت فخرجت هي وابنتاها فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم على أثر ذلك فحدثته حديثها فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ابتلى من هذه البنات بشيء فأحسن إليهن ، كن له سترا من النار
”ایک عورت اپنی دو بچیوں کو لیے مانگتی ہوئی آئی ۔ میرے پاس ایک کھجور کے سوا اس وقت اور کچھ نہ تھا میں نے اسے وہی دے دی ۔ وہ ایک کھجور اس نے اپنی دونوں بچیوں میں تقسیم کر دی اور خود نہیں کھائی ۔ پھر وہ اٹھی اور چلی گئی ۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس کا حال بیان کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ان بچیوں کی وجہ سے خود کو معمولی سی بھی تکلیف میں ڈالا تو بچیاں اس کے لیے دوزخ سے بچاؤ کے لیے آڑ بن جائیں گی ۔“
[بخارى: 1418 ، كتاب الزكاة: باب اتقوا النار ولو بشق تمرة والقليل من الصدقة ، الأدب المفرد: 132 ، مسلم: 16/6 ، احمد: 87/6 – 88 – 243 ، ترمذي: 1915 ، شرح السنة: 187/6 ، بيهقي فى شعب الإيمان: 1119]
➋ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من عال جاريتين حتى تبلغا جاء يوم القيامة أنـا وهـو هكذا وضم إصبعيه
”جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی حتی کہ وہ بالغ ہو گئیں۔ تو وہ شخص اور میں قیامت کے دن اس طرح آئیں گے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دونوں انگلیوں کو ملا لیا ۔“
[مسلم: 16/6 ، كتاب البر والصلة: باب فضل الإحسان إلى البنات ، ترمذي: 1914 ، كتاب البر والصلة: باب ما جاء فى النفقة على البنات والأخوات ، حاكم: 177/4 ، بيهقى فى شعب الإيمان: 8674 ، شرح السنة: 1682 ، احمد: 147/3 ، ابن حبان فى صحيحه: 336/1]
➌ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يكون لأحد ثلاث بنات أو بنتان أو اختان ، فيتقي الله فيهن ويحسن إليهن إلا دخل الجنة
”جس آدمی کے لیے تین بیٹیاں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں گی اور وہ اُن کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے گا اور اُن سے اچھا سلوک کرے گا تو وہ جنت میں داخل ہو جائے گا ۔“
[حسن: صحيح الأدب المفرد: ص / 58 ، 59 ، بخارى فى الأدب المفرد: 79 ، ابو داود: 5147 ، 5148 ، كتاب الأدب: باب فى فضل من عال يتيما ، احمد: 42/3 ، بيهقي فى شعب الإيمان: 8676]