روز قیامت مخلوق کو اپنے باپوں کے ناموں سے پکارا جائے گا
تحریر: عمران ایوب لاہوری

روز قیامت مخلوق کو اپنے باپوں کے ناموں سے پکارا جائے گا
امام بخاریؒ نے یہ باب قائم کیا ہے کہ :
يدعي الناس يوم القيامة بآبائهم لا بأمهاتهم
”قیامت کے دن لوگوں کو ان کے باپوں (کے ناموں) کے ساتھ پکارا جائے گا ان کی ماؤں (کے ناموں ) کے ساتھ نہیں ۔“
پھر اس باب کے تحت حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی یہ حدیث نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا جمع الله الأولين والآخرين يوم القيامة يرفع الله لكل غادر لواء يوم القيامة فيقال هذه غدرة فلان بن فلان
”جب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن پہلوں اور پچھلوں (سب) کو جمع کر لیں گے تو ہر غرر و خیانت کرے والے کے لیے ایک جھنڈا بلند کریں گے ۔ پھر پکارا جائے گا کہ یہ فلاں کے بیٹے فلاں کی دغا بازی کا نشان ہے ۔“
[بخارى: 6177 ، كتاب الأدب: باب ما يدعى الناس بآبائهم ، مسلم: 12/4 ، كتاب الجهاد: باب تحريم الغدر احمد: 29/2 ، ابن حبان فى صحيحه: 7297 ، 7298 ، شرح السنة: 2482 ، عمدة الأحكام: 417]
ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنكم تدعون يوم القيامة بأسمائكم وأسماء آبائكم فحسنوا أسمائكم
”بلاشبہ تمہیں قیامت کے دن تمہارے ناموں کے ساتھ اور تمہارے باپوں کے ناموں کے ساتھ پکارا جائے گا لٰہذا تم اپنے نام اچھے رکھو ۔“
[ضعيف: ضعيف ابو داود: 1053 ، كتاب الادب: باب فى تغيير الاسماء ، ابو داود: 4948 ، دارمي: 294/2 ، ابن حباب فى صحيحه: 5788 ، بيهقى فى شعب الإيمان: 8633 ، وفي السنن الكبرى: 19308 ، شرح السنة: 3360 ، امام ابن قيمؒ نے اس روايت كي سند كو جيد كها هے ۔]
(ابن قیمؒ) صحیح اور صریح سنت جس بات پر دلالت کرتی ہے وہ یہی ہے کہ مخلوق کو قیامت کے دن اُن کے باپوں کے ناموں کے ساتھ پکارا جائے گا اُن کی ماؤں کے ناموں کے ساتھ نہیں ۔
[تحفة المودود بأحكام المولود: ص / 139]
بعض حضرات کا یہ زعم ہے کہ لوگوں کو قیامت کے دن اُن کی ماؤں کے ناموں کے ساتھ پکارا جائے گا ۔ لیکن جس روایت سے وہ استدلال کرتے ہیں وہ ضعیف ہے ۔
[ضعيف: طبراني كبير: 7979 ، مجمع الزوائد: 45/3 ، امام ہیثمیؒ فرماتے هيں كه اس كي سند ميں ايک جماعت ايسي هے جنهيں ميں نهيں جانتا ۔ اور حافظ عراقي نے بيان كيا كه اس كي سند ضعيف هے ۔ تخريج الإحياء: 128/6 ، اس كي سند ميں عتبہ بن السكن ايک راوي هے ، امام دار قطنيؒ نے اسے متروك الحديث قرار ديا هے۔ اور بعض نے تو اس پر حديثيں گهڑنے كي تهمت بهي لگائي هے۔ ميزان الاعتدال: 425/4]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1