اسلام کی بنیاد "توحید” پر ہے – یعنی صرف اللہ کی عبادت، اسی سے مدد، اسی پر بھروسہ اور اسی کے سامنے عاجزی۔ مگر افسوس! آج اُمتِ مسلمہ کا بڑا طبقہ انہی اعمال میں مبتلا ہے جن کو نبی کریم ﷺ نے شرک یا شرک کے اسباب قرار دیا۔ حدیثِ ذاتُ أنواط اس باب میں ایک روشنی کا مینار ہے، جو ہمیں خبردار کرتی ہے کہ کسی غیراللہ سے امید رکھنا، مدد مانگنا، یا برکت لینا سابقہ امتوں کی گمراہیوں کی یاد دلاتا ہے۔
🌴 حدیثِ ذاتُ أنواط
عَنْ أَبِي وَاقِدٍ اللَّيْثِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:
خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ إِلَى حُنَيْنٍ وَنَحْنُ حُدَثَاءُ عَهْدٍ بِكُفْرٍ، وَلِلْمُشْرِكِينَ سِدْرَةٌ يَعْكُفُونَ عِنْدَهَا، وَيُنِيطُونَ بِهَا أَسْلِحَتَهُمْ، يُقَالُ لَهَا: ذَاتُ أَنْوَاطٍ، فَمَرَرْنَا بِسِدْرَةٍ فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اجْعَلْ لَنَا ذَاتَ أَنْوَاطٍ، كَمَا لَهُمْ ذَاتُ أَنْوَاطٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: اللَّهُ أَكْبَرُ! إِنَّهَا السُّنَنُ! قُلْتُمْ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، كَمَا قَالَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ لِمُوسَى: اجْعَلْ لَنَا إِلَهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ، قَالَ: إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ، لَتَرْكَبُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ.
ابو واقِد لیثی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوۂ حنین کے لیے نکلے، اور ہم نئے نئے اسلام لائے ہوئے تھے۔ مشرکوں کا ایک بیری کا درخت تھا جس پر وہ اعتکاف کرتے تھے اور اپنے ہتھیار اس پر لٹکاتے تھے۔ اسے "ذاتُ أنواط” کہا جاتا تھا۔
جب ہم بھی ایک بیری کے درخت کے پاس سے گزرے تو ہم نے کہا:
"یا رسول اللہ! ہمارے لیے بھی ایک ذاتُ أنواط مقرر فرما دیں، جیسے ان کے پاس ہے!”
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"اللہ اکبر! یہ تو وہی طریقے ہیں! قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم نے وہی بات کہی جو بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہی تھی: ’ہمارے لیے بھی ایک معبود بنا دو جیسے ان کے معبود ہیں۔‘ موسیٰؑ نے کہا: بے شک تم جاہل لوگ ہو۔ تم ضرور ان ہی لوگوں کے طریقے اختیار کرو گے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں!”
📚 تخریج حدیث:
◈ جامع الترمذی، کتاب الفتن، باب ما جاء فی اتباع سنن من کان قبلکم، حدیث نمبر: 2180
◈ سنن النسائی الکبریٰ: 8612
◈ مسند احمد: 21309
◈ مصنف ابن ابی شیبہ: 26689
✅ حکمِ حدیث:
✔ درجہ: حسن صحیح
امام ترمذیؒ فرماتے ہیں:
"ھٰذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ”
✔ محدثین نے اس حدیث کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے، اور یہ متعدد طرق سے مروی ہے۔
🧨 آج کے دور کے "ذاتُ أنواط” – شرک و بدعات کی چند جھلکیاں
🔹 قبروں، مزارات اور درباروں کا تبرک
نبی ﷺ کی تعلیمات کے خلاف، عوام قبروں سے برکت لینے، چومنے، چادریں چڑھانے اور مزار کی مٹی، پانی، تیل کو "شفا” اور "برکت” کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
ان بزرگوں سے حاجات طلب کرنا — یہ سب شرک فی الدعاء ہے۔
📖 وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ
(سورہ غافر: 60)
“تمہارا رب کہتا ہے: مجھ سے دعا کرو، میں قبول کروں گا۔”
📖 الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ
“دعا ہی عبادت ہے”
📚 سنن الترمذی: 2969 | صحیح
🔹 مردہ اولیاء سے مدد، کشف و کرامات کی امید
عوام کا یہ گمان کہ اولیاء کرام غیب جانتے ہیں، ہماری فریاد سنتے ہیں، مشکل کشا یا حاجت روا ہیں — قرآن و سنت کے سراسر خلاف ہے۔
📖 وَمَن يَدْعُ مَعَ اللَّهِ إِلَـٰهًا آخَرَ لَا بُرْهَانَ لَهُ بِهِ
(سورہ المؤمنون: 117)
“جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو پکارتا ہے، اس کے پاس اس کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے۔”
🔹 تبرکاتی اشیاء اور غیر شرعی وسیلے
جھنڈے، تعویذ، چھڑیاں، چادریں، پانی یا دھاگے جو کسی بزرگ یا دربار سے منسوب ہوں — یہ سب غیر شرعی وسیلے ہیں۔
📖 إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ
(صحیح بخاری)
“اعمال نیتوں پر مبنی ہوتے ہیں” – اور نیت بھی اللہ کے لیے ہونی چاہیے، نہ کہ کسی بزرگ یا مزار کے لیے۔
🔹 میلاد، عرس، گیارہویں، چالیسویں – بدعات کا بازار
نہ نبی ﷺ، نہ صحابہؓ، نہ تابعینؒ سے ایسی کوئی رسم ثابت ہے۔
ان رسومات کی کوئی شرعی بنیاد نہیں۔
📖 كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ
(صحیح مسلم)
“ہر بدعت گمراہی ہے۔”
⚠️ نتیجہ:
یہ تمام اعمال "ذاتُ أنواط” جیسے شرکیہ خواہشات اور رسموں کی جدید شکلیں ہیں۔
نبی ﷺ نے ایک سادہ درخواست پر بھی سخت تنبیہ فرمائی — تو آج کے قبر پرست، دربار پرست، چراغ پرست، اور تعویذ پرست کا حال کیا ہوگا؟
🛡 خالص توحید کی دعوت
🔹 صرف اللہ سے دعا مانگیں – نہ مردے، نہ مخلوق
🔹 وسیلہ صرف وہی جو شریعت سے ثابت ہو
🔹 عبادت میں صرف نبی ﷺ کی پیروی کریں
🔹 ہر بدعت سے بچیں – یہی فلاح کا راستہ ہے!
🤲 توحید سے متعلق مسنون دعا
📜 اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أُشْرِكَ بِكَ وَأَنَا أَعْلَمُ، وَأَسْتَغْفِرُكَ لِمَا لَا أَعْلَمُ
ترجمہ:
❝ اے اللہ! میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں جان بوجھ کر تیرے ساتھ شرک کروں، اور میں تجھ سے معافی مانگتا ہوں اُس شرک سے جو میں جانے بغیر کروں۔ ❞
📚 (مسند احمد: 4/403 | صحیح)