کیا قرآن مجید زمین پر رکھنا جائز ہے؟
تحریر: ✒ محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

سوال:

کیا قرآن مجید زمین پر رکھنا جائز ہے؟

الجواب:

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ فرماتے ہیں:

"أَتَی نَفَرٌ مِنْ يَہُودٍ،فَدَعَوْا رَسُولَ اللہِ ﷺ إِلَی الْقُفِّ،فَأَتَاہُمْ فِي بَيْتِ الْمِدْرَاسِ،فَقَالُوا: يَا أَبَا الْقَاسِمِ! إِنَّ رَجُلًا مِنَّا زَنَی بِامْرَأَةٍ،فَاحْكُمْ بَيْنَہُمْ،فَوَضَعُوا لِرَسُولِ اللہِ ﷺ وِسَادَةً،فَجَلَسَ عَلَيْہَا،ثُمَّ قَالَ ((ائتُني بِالتَّوْرَاةِ))،فَأُتِيَ بِہَا،فَنَزَعَ الْوِسَادَةَ مِنْ تَحْتِہِ،فَوَضَعَ التَّوْرَاةَ عَلَيْہَا …. إلخ”

یہود کا ایک گروہ آیا۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ کی (ایک وادی) قف کی طرف بلایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس ان کے مدرسہ (مدراس) میں تشریف لے گئے۔ انھوں نے کہا: اے ابوالقاسم! ہم میں سے ایک آدمی نے ایک عورت کے ساتھ زنا کیا ہے آپ ان میں فیصلہ کریں۔ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک تکیہ رکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بیٹھ گئے۔ پھر فرمایا: میرے پاس تورات لے آؤ۔ پھر تورات لائی گئی تو آپ نے تکیہ نیچے سے نکالا اور تورات کو اس پر رکھا۔

[سنن ابی داود مع عون المعبود جلد3، ص264، حدیث:4449]

اس حدیث کی سند حسن ہے۔ اس کے سارے راوی ثقہ ہیں۔ سوائے 👤ہشام بن سعد کے، ان پر جرح بھی ہے لیکن میری تحقیق میں وہ جمہور محدثین کے نزدیک صدوق و موثق ہیں جیسا کہ میں نے 📜سنن ابی داود کے حاشیہ "نیل المقصود” (حدیث497) اور 📜التعلیق علی تہذیب التہذیب میں ثابت کیا ہے لہذا ان کی حدیث حسن ہے۔

حافظ ذہبی اور امام عجلی دونوں نے فرمایا: "حسن الحدیث”

(📜الکاشف:196/3، 📜تاریخ العجلی:1514)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید اور آسمانی کتابوں کو زمین پر نہیں رکھنا چاہئے بلکہ ہر ممکن احترام کرتے ہوئے انھیں کسی بلند اور پاک جگہ پر رکھنا چاہئے۔

اصل مضمون کے لیے دیکھیے فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام، جلد2، ص55، 56

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے