شراب سے سرکہ بنانا حرام ہے اور جوش مارنے سے پہلے رس اور نبیذ جائز ہے اور اس کے (جوش مارنے کا ) عام گمان یہ ہے کہ جب وہ تین دن سے زیادہ پڑا رہے
➊ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم سئل عن الخمر يتخذ خلا فقال: لا
”نبي صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب سے سرکہ بنانے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلى الله عليه وسلم نے اس کی اجازت نہ دی ۔“
[مسلم: 1983 ، كتاب الأشربة: باب تحريم تخليل الخمر ، احمد: 119/3 ، ابو داود: 3675 ، ترمذي: 1294]
➋ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے جب یتیموں کو وراثت میں ملنے والی شراب کا سرکہ بنانے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا ۔
[حسن: صحيح ترمذي ، ترمذي: 1293 ، كتاب البيوع: باب ماجاء فى بيع الخمر والنهي عن ذلك]
➌ قتیبہ بن سعیدؒ نے امام مالکؒ کے دور میں مدینہ کے قاضی سے شراب کے سرکہ کے متعلق پوچھا تو اس نے جواب میں کہا: سبحان الله ”رسول اللہ کے حرم میں ایسا سوال ۔“ لیکن امام مالکؒ کی وفات کے بعد جب جا کر یہی ذکر کیا تو کسی نے تعجب نہ کیا ۔
[أعلام الموقعين: 404/2 – 405]
(جمہور ) شراب کا سرکہ بنانا جائز نہیں اور نہ ہی یہ سرکہ بنانے سے پاک ہوتی ہے ۔
(ابو حنیفہؒ) کسی اور چیز کو ملا کر سرکہ بنانے سے شراب پاک ہو جاتی ہے ۔
(قرطبیؒ) اگر سرکہ بنانا جائز تھا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیموں کا مال ضائع کر دیا ۔
[الروضة الطالبين: 313/3 ، الهداية: 110/4 ، المغنى: 460/6 ، بداية المجتهد: 381/1]
(راجح) حدیث کا ظاہر سرکہ بنانے کی حرمت پر دلالت کرتا ہے ۔
[الروضة الندية: 441/3]
➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی افطاری کرنے کے لیے کدو کے مٹکے میں نبیذ بنایا ۔ پھر اسے آپ کے پاس لایا تو وہ جوش مار چکا تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اضرب بهذا الحائط فإن هذا شراب مــن لا يؤمن بالله واليوم الآخر
”اسے دیوار کے ساتھ دے مارو کیونکہ یہ ان لوگوں کا مشروب ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 2752 ، ابو داود: 3716 ، كتاب الأشربة: باب فى النبيذ إذا غلا ، نسائي: 5610 ، ابن ماجة: 3409]
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ کے لیے منقیٰ بھگویا جاتا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ایک دن پیتے ، پھر اگلے دن پیتے ، پھر اس سے اگلے دن یعنی تیسرے دن کی شام تک پیتے اور اس کے بعد خادم کو پلا دینے کا کہتے یا پھر اسے بہا دیتے ۔“
[مسلم: 2004 ، ابو داود: 3713 ، نسائي: 5739 ، ابن ماجة: 3399]
➌ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے صبح نبیذ بناتیں تو آپ اسے شام کے کھانے کے ساتھ پیتے ۔ اگر کچھ بچ جاتا تو آپ اسے بہا دیتیں ۔ پھر رات کو نبیذ بناتیں تو آپ اسے صبح کے کھانے کے ساتھ تناول فرماتے اور مزید فرماتی ہیں کہ :
نغسل السقاء غدوة وعشية
”ہم مشکیزے کو صبح و شام دھوتے تھے ۔“
[مسلم: 2005 ، كتاب الأشربة: باب إباحة النبيذ الذى لم يشتد ولم يصر مسكرا ، ابو داود: 3712]
درج بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ ایک دن نبیذ کا استعمال یا تین دن دونوں طرح درست ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی طرز عمل تھا ۔