اسلام میں امانت، عاریت اور عاریہ کے احکام و آداب
تحریر: عمران ایوب لاہوری

امانت دار اور ادھار لینے والے پر واجب ہے کہ وہ امانت ادا کرے اور اس کی بھی خیانت نہ کرے جس نے اس سے خیانت کی ہو
لغوی وضاحت: لفظِ وديعة ”امانت اور جو چیز حفاظت کے لیے غیر کو دی جائے“ کے معانی میں مستعمل ہے۔ باب أَوْدَعَ ، اسْتَودَع اور اِثْتَمَنَ (افعال استفعال اور افتعال ) ”کسی کے پاس امانت رکھنا ۔“
[المنجد: ص/ 957 ، القاموس المحيط: ص/ 994]
اصطلاحی تعریف: یہ لفظ امانت دینے پر یا امانت دی جانے والی چیز پر بولا جاتا ہے۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 4016/5]
لغوی وضاحت: لفظِ عارية کا مطلب ”اُدھار لی ہوئی چیز“ ہے۔ باب أَعَارَ (إفعال) اُدھار دینا ۔ باب إسْتَعَارَ (استفعال) اُدھار لینا ۔
[المعجم الوسيط: ص/537]
اصطلاحی تعریف: بغیر عوض کے کسی کو نفع اٹھانے کی اجازت دینا۔
[مغنى المحتاج: 264/2 ، كشاف القناع: 67/4 ، الفقه الإسلامي وأدلته: 4036/5]
ودیعہ اور عاریہ کی مشروعیت کے دلائل حسب ذیل ہیں:
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا [النساء: 58]
”بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم امانتیں ان کے اہل لوگوں کے سپرد کرو ۔“
فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ [البقرة: 283]
”جسے امانت دی گئی ہے وہ اسے ادا کر دے ۔“
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ [المائدة: 2]
”نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو ۔“
وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ [الماعون: 7]
”اور وہ عام برتنے کی اشیا سے روکتے ہیں ۔“
➎ ودیعہ اور عاریہ کی مشروعیت پر اہل علم کا اجماع ہے۔
[المغنى: 382/6 ، المبسوط: 109/11]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:
أد الأمانة إلى من ائتمنك ولا تخن من خانك
”اس شخص کو امانت واپس کرو جس نے تمہارے پاس امانت رکھی ہے اور جس نے تم سے خیانت کی ہے اس سے خیانت نہ کرو ۔“
[حسن صحيح: صحيح ابو داود: 3019 ، كتاب البيوع: باب فى الرجل ياخذ حقه من تحت يده ، ابو داود: 3535 ، ترمذي: 1264 ، دارمي: 264/2 ، دارقطني: 35/3 ، مجمع الزوائد: 145/4 ، أحمد: 414/3 ، الصحيحة: 709/1]
یہ حدیث بظاہر درج ذیل آیات کے مخالف معلوم ہوتی ہے:
وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا [الشورى: 40]
”اور برائی کا بدلہ اس کی مثل برا ہی ہے ۔“
وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ [النحل: 126]
”اور اگر بدلہ لو تو بالکل اتنا جتنا تمہیں صدمہ پہنچایا گیا ہو ۔“
فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ [البقرة: 194]
”جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اسی کی مثل زیادتی کرو جو تم پر کی ہے ۔“
اس کی تطبیق میں چار مختلف اقوال ہیں:
(احناف) خیانت جائز ہے بشرطیکہ امانت دیا ہوا مال اس مال کی جنس سے ہو جس میں خیانت کی گئی ہے۔
(شوکانیؒ) حاکم کی اجازت کے بغیر (خیانت) جائز نہیں ۔
(ابن حزمؒ ) اپنے حق کے مطابق بدلے میں مال رکھ لینا واجب ہے۔
(شافعیؒ) حدیث میں نہی تنز یہی ہے ، تحریمی نہیں (جمہور علما بھی اسی کے قائل ہیں)۔
[نيل الأوطار: 691/3 ، سبل السلام: 1203/3]
(راجح) مذکورہ حدیث آیات کے عموم سے خاص ہے اور اس میں نہی تنز یہی ہے ۔
[نيل الأوطار: 690/3 ، قفو الأثر: 1095/3]
اس کی زیادتی یا خیانت کے علاوہ اگر کوئی چیز تلف ہو جائے تو وہ ذمہ دار ہو گا
عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ليس على المستعير غير المغل ضمان
”جسے امانت دی گئی ہے اس پر خیانت کے بغیر کوئی ضمانت نہیں ۔“
[ضعيف: دارقطني: 41/3 ، 168 ، امام دارقطنيؒ فرماتے هيں كه اس روايت كي سند ميں عمرو اور عبيده دونوں راوي ضعيف هيں اور اس روايت كو امام بيهقيؒ نے بهي ضعيف قرار ديا هے ۔ بيهقي: 91/6]
اگرچہ اس روایت کی سند میں ضعف ہے لیکن اس مسئلے پر علما کا اجماع ہو چکا ہے ۔
[موسوعة الإجماع فى الفقه الإسلامي لسعدي أبو حبيب: 1108/2 ، الفقه الإسلامي وأدلته: 4022/5]
(جمہور) اسی کے قائل ہیں۔
[نيل الأوطار: 289/3 ، الروضة الندية: 312/2]
تاہم عاریہ (ادہار) میں تلف شدہ چیز کی ضمانت دی جائے گی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے دن صفوان بن اُمیہ سے کچھ زرعیں اُدہار لیں تو اس نے کہا :
أغصبا يا محمد
”اے محمد ! کیا زبردستی آپ لے رہے ہیں“
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بل عارية مضمونة
” (نہیں) بلکہ ضمانت کے ساتھ عاریتا لے رہا ہوں ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 2042 ، كتاب البيوع: باب فى تضمين العارية ، ابو داود: 3562 ، أحمد: 401/3 ، نسائي فى الكبرى: 409/30 ، حاكم: 47/2 ، امام حاكمؒ نے اسے مسلم كي شرط پر صحيح كها هے۔ شيخ عبد القادر ارنؤوط نے اسے حسن كها هے۔ تخريج الأصول: 163/8]
عاریہ مضمونہ کا معنی یہ ہے کہ اگر عاریتالی ہوئی چیز تلف ہو جائے تو قیمت کی شکل میں ادائیگی ضروری ہے۔
[عون المعبود: 476/9 ، قفو الأثر: 1095/3 ، سبل السلام: 1205/3]
کسی محتاج کو عام ضرورت کی اشیاء مثلاََ ڈول ، ہنڈیا، نر کی جفتی ، دودھ دینے والا جانور یا فی سبیل اللہ کوئی سواری دینے سے منع کرنا جائز نہیں
➊ ارشاد باری تعالی ہے کہ :
”ایسے نمازیوں کے لیے ہلاکت ہے جو اپنی نماز سے غافل ہیں ، جو ریا کاری سے کام لیتے ہیں اور عام برتنے کی چیز روک لیتے ہیں ۔ “ [الماعون: 4 – 8]
➋ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عہد رسالت میں ہم ڈول اور ہنڈیا کے ادھار (لین دین) کو ماعون شمار کرتے تھے ۔
[حسن: صحيح ابو داود: 1459 ، كتاب الزكاة: باب فى حقوق المال ، ابو داود: 1657 ، حافظ ابن حجرؒ نے اس كي سند كو صحيح كها هے۔ فتح الباري: 731/8]
➌ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے درج بالا آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ
أنه متاع البيت الذى يتعاطاه الناس بينهم
”اس سے مراد وہ گھریلو سامان ہے جس کا لوگ باہم لین دین کرتے ہیں ۔“
مثلاً کلہاڑی ، ڈول ، رسی ، ہنڈیا اور اس طرح کی دوسری اشیا وغیرہ ۔
[بيهقي: 88/6 ، ابن جرير طبري: 30/15]
➍ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو بھی اونٹ گائے اور بھیڑ بکریوں والا شخص ان کا حق ادا نہیں کرے گا اس کے لیے قیامت کے دن ایک چٹیل میدان بچھایا جائے گا۔ (اس میدان میں ) کھروں والے جانور اسے اپنے کھروں سے روندیں گے اور سینگوں والے اپنے سینگ ماریں گے۔ ہم نے دریافت کیا اے اللہ کے رسول! ان کا کیا حق ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إطراق فحلها وإعارة دلوها ومنحتها وحلبها على الماء وحمل عليها فى سبيل الله
”ان کے نر کی جفتی ، ان کے ڈول عاریتا دینا اور ان کا عطیہ دینا ، ان کا دودھ پانی پر (جہاں لوگ مویشیوں کو پانی پلاتے ہیں ) اور فی سبیل اللہ اس پر کسی کو سوار کرنا ۔“
[مسلم: 988 ، كتاب الزكاة: باب إثم مانع الزكاة]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1