اُس چیز کو قرض (کی حالت ) میں گروی رکھنا جائز ہے جس کا مقروض مالک ہے ۔ مرہون کے خرچے کے سبب (رہن رکھے ہوئے ) جانور پر سواری کی جا سکتی ہے اور دودھ پیا جا سکتا ہے
لغوی وضاحت: لفظِ رهن باب رَهَنَ يَرْهَنُ (فتح) سے مصدر ہے۔ گروی رکھنا ، گروی ثابت ہونا ، ہمیشہ رہنا ، رو کنا اور لازم ہونا ، سب اس کے معانی ہیں۔ باب اِرْتَهَنَ (افتعال ) گروی لینا۔ باب اسْتَرُهَنَ (استفعال) گروی طلب کرنا ۔ راهن ”گروی رکھنے والا ۔“ مرتهن ”جسے گروی دی گئی ہے ۔“ مَرهُون يا رهين ”گروی رکھی ہوئی چیز ۔“
[المنجد: ص/318 ، القاموس المحيط: ص/ 1551]
اصطلاحی تعریف: قرض کے بدلے کوئی مال بحیثیت دستاویز دینا۔
[نيل الأوطار: 247/3 ، سبل السلام: 1155/3 ، الدر المختار: 339/5 ، المبسوط: 63/21 ، الفقه الإسلامي وأدلته: 4207/6]
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
وَإِن كُنتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَّقْبُوضَةٌ [البقرة: 283]
”اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو رہن قبضہ میں رکھ لیا کرو ۔“
سفر کی قید اغلبیت کی بنا پر ہے کیونکہ اکثر و بیشتر کاتب کا فقدان سفر میں ہی ہوتا ہے تاہم رہن فی الحضر کے جواز میں اہل ظاہر ، امام ضحاکؒ اور مجاہدؒ کے علاوہ تمام علما کا اتفاق ہے۔
[المغني: 327/4 ، المهذب: 305/1 ، بدائع الصنائع: 135/6 ، بداية المجتهد: 271/2 ، القوانين الفقهية: ص/ 323 ، الإفصاح: 238/1 ، الفقه الإسلامي وأدلته: 4209/6 ، الروضة الندية: 304/2]
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ :
توفى رسول الله ودرعه مرهونة عند يهودى بثلاثين صاعا من شعير
”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جب فوت ہوئے تو آپ کی زرع ایک یہودی کے پاس تیسں صاع جو کے عوض گروی رکھی ہوئی تھی ۔“
[بخارى: 2069 ، كتاب الجهاد والسير: باب ما قيل فى درع النبى والقميص فى الحرب ، مسلم: 1603 ، أحمد: 42/6 ، نسائي: 288/7 ، ابن ماجة: 2436]
درج بالا حدیث سے کفار کے ساتھ ایسے معاملات کا جواز نکلتا ہے جن کے متعلق واضح حرمت نہیں آئی۔ نیز اہل حرب کے علاوہ اہل ذمہ کے پاس اسلحہ گروی رکھنے کا بھی جواز ثابت ہوتا ہے۔
[نيل الأوطار: 619/3]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الظهر يركب بنفقته إذا كان مرهونا ولبن الدر يشرب بنفقته إذا كان مرهونا وعلى الذى يركب ويشرب النفقة
”رہن رکھے ہوئے جانور پر اخراجات و مصارف کے عوض سواری کی جا سکتی ہے اور دودھ دینے والے جانور کا دودھ بھی پیا جا سکتا ہے اور جو سواری کرتا ہے اور دودھ پیتا ہے وہی اخراجات کا ذمہ دار ہے۔“
[بخاري: 2512 ، كتاب الرهن: باب الرهن مركوب و محلوب ، ابو داود: 3526 ، ترمذى: 1254 ، ابن ماجة: 2440 ، شرح معاني الآثار: 98/4 ، دارقطني: 34/3 ، بيهقي: 38/6]
(ابو حنیفہؒ) مرتہن کے لیے رہن رکھی ہوئی چیز سے نفع اٹھانا جائز ہے۔
(مالکؒ) راہن سے نفع اُٹھانے کی اجازت ہو یا مرتہن نے شرط لگائی ہو تو جائز ہے ورنہ نہیں ۔
(شافعیؒ) اسی کے قائل ہیں۔
(جمہور) انہوں نے بھی امام مالکؒ کے قول کو ہی ترجیح دی ہے۔
(احمدؒ ) اخراجات کے برابر نفع حاصل کیا جا سکتا ہے۔
(ابن قدامہؒ) مرتہن گروی رکھی ہوئی چیز سے کچھ بھی فائدہ حاصل نہیں کر سکتا اِلا کہ وہ چیز ایسی ہو کہ جس پر سواری کی جاتی ہو یا اس کا دودھ دوہا جاتا ہو تو اسے چارہ ڈالنے کے برابر اس پر سواری بھی کی جا سکتی ہے اور اس کا دودھ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔
[المغنى: 509/6]
(ابن قیمؒ) مطلق طور پر گروی رکھی ہوئی اشیا سے نفع حاصل کیا جا سکتا ہے۔
[بدائع الصنائع: 146/6 ، تبيين الحقائق: 68/6 ، بداية المجتهد: 273/2 ، الإفصاح: 238/1 ، مغني المحتاج: 121/2 ، نيل الأوطار: 620/3 ، أعلام الموقعين: 411/2]
(راجح) اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے قدرے تفصیل کی ضرورت ہے۔ یعنی اگر گروی رکھی جانے والی چیز خرچے کی محتاج نہ ہو مثلاََ گھر اور دیگر سامان وغیرہ تو کسی حال میں بھی مرتہن کے لیے اس چیز سے راہن کی اجازت کے بغیر نفع حاصل کرنا جائز نہیں اور اس مسئلے میں کوئی اختلاف بھی نہیں ہونا چاہیے کیونکہ گروی رکھی ہوئی چیز راہن کی ملکیت ہے اور اس کا منافع بھی اسی کا ہو گا لہذا کسی اور کے لیے اس کی اجازت کے بغیر اس سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ۔
(ابن قدامہؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[المغني: 509/6]
اور اگر گروی رکھی جانے والی چیز خرچے کی محتاج ہو مثلا مویشی وغیرہ تو اپنے کیے ہوئے خرچے کے برابر مرتہن اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے جیسا کہ گذشتہ حدیث میں مذکور ہے۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ اگر گھر بھی خرچے کا محتاج ہو گا تو اس سے بھی خرچے کے برابر فائدہ اٹھانا جائز ہو گا کیونکہ فائدہ اٹھانے کو خرچے کے ساتھ معلق قرار دیا گیا ہے۔ والله اعلم
اور رہن کو (قرض کی عدم ادائیگی کے سبب ) ہمیشہ کے لیے نہ روکا جائے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يغلق الـرهـن مــن صاحبه الذى رهنه له غنمه و عليه غرمه
”گروی شدہ چیز اس کے مالک سے روکی نہیں جائے گی ، اس کا فائدہ بھی اسی کے لیے ہے اور تاوان کا بھی وہی ذمہ دار ہے ۔“
[ضعيف: دارقطني: 32/3 ، حاكم: 51/2 ، بيهقى: 39/6 ، موارد الظمآن: 1123 ، ترتيب المسند للشافعي: 164/2 ، يه روايت ضعيف هے۔ حافظ ابن حجرؒ نے كها هے كه اس روايت كي تمام اسناد ضعيف هيں۔ تلخيص الحبير: 84/3 ، اور بلوغ المرام ميں نقل كيا هے كه اس كے رجال ثقه هيں مگر ابو داود وغيره كے پاس محفوظ اس كا مرسل هونا هي هے۔ بلوغ المرام: ص / 193 ، يهي روايت مختصر الفاظ ميں سنن ابن ماجة: 2441 ، ميں بهي هے ليكن وه بهي ضعيف هے۔ ضعيف ابن ماجة: 531 ، إرواء الغليل: 242/5]
رہن روک لینے کا مطلب یہ ہے کہ اگر راہن قرض ادا نہ کر سکے تو اس صورت میں مرتہن رہن کا مستحق (مالک حقیقی ) نہیں ہو گا۔
[سبل السلام: 1157/3 ، نيل الأوطار: 621/3 ، الروضة الندية: 307/2 ، ترتيب القاموس: غلق]
جاہلیت میں جب راہن مقررہ مدت تک قرض کی ادائیگی نہ کرتا تو مرتہن مرہونہ شے کا مالک بن جاتا اس لیے شارع نے اسے باطل کر دیا ۔
[نيل الأوطار: 621/3 ، سبل السلام: 1157/3]
◈ مرہونہ شے اگر مرتہن کی زیادتی یا خیانت کے بغیر تلف ہو جائے تو وہ اس کا ضامن و ذمہ دار نہیں ہو گا بصورت دیگر وہی ذمہ دار ہو گا۔
[الروضة الندية: 308/2]