اسلام میں شراکت داری کے اصول اور مشترکہ وسائل کا حق
تحریر: عمران ایوب لاہوری

تمام لوگ پانی ، آگ اور گھاس میں (ایک دوسرے کے ) شریک ہیں
لغوی وضاحت: لفظِ شركة باب شَرِكَ يَشْرَكُ (سمع) سے مصدر ہے۔ اس کا معنی شریک ہونا ہے۔ باب أشْرَكَ (افعال) شریک کرنا ۔باب شَارَكَ تَشارَك (مفاعلة ، تفاعل ) باہم شریک ہونا
[المنجد: ص/523 – 524]
اصطلاحی تعریف: کسی تصرف یا استحقاق میں باہم اکٹھے ہو جانا۔
[المغنى: 1/5 ، الفقه الإسلامي وأدلته: 3875/5]
مشروعیت: شراکت کتاب و سنت سے ثابت ہے۔
➊ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ [النساء: 12]
”تو ایک تہائی میں سب شریک ہوں گے ۔“
➋ ایک اور آیت میں ہے کہ :
وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْخُلَطَاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ [ص: 24]
”اور اکثر حصہ دار اور شریک (ایسے ہوتے ہیں کہ ) ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہیں ۔“
➌ حدیث قدسی ہے کہ :
أنا ثالث الشريكين ما لم يخن أحدهما صاحبه
”دو شریکوں میں تیسرا میں ہوتا ہوں جب تک کہ ان میں سے کوئی ایک اپنے ساتھی سے خیانت نہ کرے۔“
[ضعيف: ضعيف ابو داود: 732 ، كتاب البيوع: باب فى الشركة ، أبو داود: 3383]
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
المسلمون شركاء فى ثلاثة: فى الماء والكلأ والنار
”مسلمان تین چیزوں میں (ایک دوسرے کے ) شریک ہیں: پانی ، گھاس اور آگ ۔“
[صحيح: إرواء الغليل: 8/6 ، ابو داود: 3477 ، كتاب البيوع: باب فى منع الماء ، أحمد: 364/5]
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب یہ اشیا ذاتی ضروریات سے زائد ہوں تو بوقت ضرورت لوگوں کو ان سے روکنا جائز نہیں جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث سے بھی اس بات کی وضاحت ہوتی ہے:
لا يمنع الماء والنار والكلأ
”پانی ، آگ اور گھاس کو نہ روکا جائے۔“
[صحيح: إرواء الغليل: 907/6 ، ابن ماجة: 2473]
لا تمنعوا فضل الماء
”زائد پانی مت روکو ۔“
[بخاري: 2354 ، كتاب المساقاة: باب من قال: إن صاحب الماء أحق بالماء]
جب پانی کے حقداروں میں اختلاف ہو جائے تو اس کا زیادہ حقدار وہ ہو گا جو اوپر کی جانب ہو پس اوپر والا اس پانی کو ٹخنوں تک روکے گا پھر اسے اپنے نیچے والوں کی طرف چھوڑ دے گا
➊ حضرت عبادۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیلابی پانی کھجور کے درختوں کو لگانے کے متعلق اس طرح فیصلہ کیا کہ اوپر والا پہلے ٹخنوں تک فصل میں پانی بھرے پھر نیچے والے کے لیے چھوڑ دے ۔
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 2014 ، كتاب الأحكام: باب الشرب من الأودية ومقدار حبس الماء ، ابن ماجة: 2483 ، بيهقى: 154/6 ، مجمع الزوائد: 203/4 ، الفتح الرباني: 218/15]
➋ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت زبیر رضی اللہ عنہ اور ایک انصاری کا کھجور کے درختوں کو پانی پلانے پر جھگڑا ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اسق يا زبير ثم أرسل الماء إلىٰ جارك
”اے زبیر! پہلے تم پانی لگاؤ پھر اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑ دو ۔“
پھر اس سلسلے میں یہ آیت نازل ہوئی:
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ [النساء: 65]
[بخاري: 2360 ، كتاب المساقاة: باب سكر الأنهار ، مسلم: 2357 ، ترمذي: 1283 ، ابو داود: 3153]
یاد رہے کہ یہ فرمانِ نبوی نالوں ، چشموں ، سیلابوں ، شہروں اور بارشوں کے پانی کے متعلق ہے اگر کسی نے ذاتی جمع خرچ سے ٹیوب ویل یا موٹریں وغیرہ لگوائی ہوں تو وہ حسبِ منشا استعمال کا مجاز ہے۔
اور زائد پانی کو روکنا جائز نہیں ، تا کہ اس کے ذریعے گھاس کو روکا جائے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تمنعـوا فـضل الماء لتمنعوا به الكلأ
”زائد پانی کو اس لیے نہ روکو کہ اس کے ذریعے تم گھاس کو روک لو ۔“
[بخارى: 3354 ، كتاب المساقاة: باب من قال إن صاحب المال أحق بالماء حتى يروى ، مسلم: 1566 ، مؤطا: 29 ، ابو داود: 3473 ، ترمذي: 1272 ، ابن ماجة: 2478]
اس کی صورت یہ ہے کہ کسی شخص کے پانی کے قریب گھاس اُگ آئی ہو۔ لوگوں کے مویشی وہاں پانی پینے آئیں تو گھاس بھی چرنے لگ جائیں ، یہ بات مالک کو ناگوار گزرے اور وہ گھاس بچانے کے لیے پانی روک دے۔
حکمران کو حق حاصل ہے کہ وہ بوقت ضرورت بعض جگہیں مسلمانوں کے جانور (بیت المال کے مویشی ) چرانے کے لیے خاص کر لے
➊ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم حمى النقيع وأن عمر رضي الله عنه حمي السرف والربذة
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نقیع میں چراگاہ بنوائی تھی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سرف اور ربذہ کو چراگاہ بنایا۔“
[بخاري: 2370 ، كتاب المساقاة: باب لا حمى إلا لله ورسوله ، ابو داود: 3084 ، حاكم: 61/2]
➋ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم حمى النقيع لخيل المسلمين
”نبي صلی اللہ علیہ وسلم نے نقیع کو مسلمانوں کے گھوڑوں کے لیے چراگاہ بنا لیا ۔“
[صحيح: احمد: 6438 ، ابن حبان: 1641 – الموارد ، شيخ احمد شاكرؒ نے اسے صحيح كها هے۔]
ان احادیث کا مطلب یہ ہے کہ جنگل وغیرہ کی چراگاہ یا گھاس روک لینے کا حق صرف اللہ اور اس کے رسول کو ہے۔ خلیفہ المسلمین یا حاکم وقت بھی رسول کا قائم مقام ہی ہوتا ہے اس کے سوا دوسرے لوگوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ایسی چراگاہ جو کسی کی ملکیت نہ ہوا اپنے لیے روک لیں یا خاص کر لیں ۔
امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ حاکم وقت کے لیے بیت المال کے مویشیوں کے لیے چراگاہ خاص کر لینا جائز تو ہے لیکن یہ چراگاہ بنجر وغیر آباد جگہ کے علاوہ کوئی اور زمین نہ ہو کیونکہ اس میں عوام کے لیے نقصان و مشقت ہے۔
[المسوى على مؤطا: 62/2 ، الروضة الندية: 294/2]
نقدی اور تجارتی اموال میں شراکت جائز ہے اور نفع اس پر تقسیم کیا جائے گا جس پر دونوں فریق رضا مند ہوں
➊ حضرت سائب بن أبی سائب رضی اللہ عنہ ، قبل از بعثت ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شریک تھے۔ فتح مکہ کے دن جب تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا جاہلیت میں آپ میرے بہترین شریک تھے نہ مجھے فریب دیتے اور نہ مجھ سے جھگڑا کرتے ۔
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 1853 ، ابو داود: 4836 ، كتاب الأدب: باب فى كراهية المراء ، ابن ماجة: 2287 ، حاكم: 61/2]
➋ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ اور حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بھی چاندی خریدنے میں ایک دوسرے کے شریک بنے ۔
[بخارى: 2497 – 2498 ، كتاب الشركة: باب الاشتراك فى الذهب والفضة وما يكون فيه الصرف ، مسلم: 1589 ، نسائي: 4576]
➌ حدیث قدسی ہے کہ :
أنا ثالث الشريكين ما لم يخن أحدهما صاحبه
”میں دو شریکوں کا تیسرا (ساتھی ) ہوں جب تک کہ ان میں سے ایک اپنے ساتھی سے خیانت نہ کرے ۔“
[ضعيف: ضعيف ابو داود: 732 ، كتاب البيوع: باب فى الشركة ، ابو داود: 3383 ، دار قطني: 135 ، حاكم: 52/2 ، بيهقي: 78/6]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1