بنجر زمین کی آباد کاری اور اس کی ملکیت کا شرعی حکم
تحریر: عمران ایوب لاہوری

جس نے ایسی زمین کو آباد کیا جسے اُس سے پہلے کسی نے آباد نہ کیا ہو تو وہ اُس کا زیادہ حقدار ہے اور وہ اسی کی ملکیت ہوگی
لغوى وضاحت: لفظِ إحياء باب أَحيٰى يُحْيِي (افعال) سے مصدر ہے اس کا معنی ”زمین کو آباد کرنا“ ہے۔
[لسان العرب: 424/3 ، القاموس المحيط: ص/ 1649]
اصطلاحی تعریف: کسی ایسی زمین کو پانی لگانے کے ذریعے ، زراعت و کاشتکاری کے ذریعے یا عمارت تعمیر کرنے کے ذریعے آباد کرنا جو پہلے کسی کی ملکیت میں نہ ہو۔
[نيل الأوطار: 320/5]
لغوی وضاحت: لفظِ إقطاع باب أقطَعَ يُقْطِعُ (إفعال) سے مصدر ہے ۔ اس سے مراد ”زمین کا ٹکڑا عطا کرنا“ ہے۔
[القاموس المحيط: ص/ 973 ، لسان العرب: 224/11]
اصطلاحی تعریف: بنجر اراضی سے کچھ حصہ بعض حاجت مند افراد کو عطا کر دینا (خواہ زمین ہو یا معدنیات) إقطاع کہلاتا ہے لیکن اس میں یہ شرط ہے کہ بنجر اراضی پہلے کسی کی ملکیت میں نہ ہوں۔
[نيل الأوطار: 328/5 ، الفقه الإسلامي وأدلته: 4642/6 ، لسان العرب: 224/11]
➊ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من أحيا أرضا ميتة فهى له
”جس نے کسی بنجر و بےکار زمین کو آباد کیا وہ اسی کی ملکیت ہے۔“
[صحيح: إرواء الغليل: 1550 ، أحمد: 304/3 ، ترمذي: 1379 ، ابن حبان: 1139 – الموارد]
➋ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من عمر أرضا ليست لأحد فهو أحق بها
”جس نے ایسی زمین کو آباد کیا جو کسی کی ملکیت میں نہیں تھی تو وہی اس کا زیادہ حقدار ہے ۔“
[بخاري: 2335 ، كتاب الحرث و المزارعة: باب من أحيا أرضا مواتا]
بنجر زمین کی آباد کاری کے وقت حاکم وقت سے اجازت لینے میں اختلاف ہے۔
(ابو حنیفہؒ) زمین کی آباد کاری میں حاکم وقت کا اذن ضروری ہے۔
(مالکؒ) اگر زمین آبادی کے قریب ہے تو اجازت لینی چاہیے بصورت دیگر اس کی ضرورت نہیں ۔
(شافعیؒ ، احمدؒ ، ابو یوسفؒ ، محمدؒ) جس نے کسی بھی بے آباد زمین کو آباد کیا وہ اس کا مالک ہے خواہ امام سے اجازت نہ لی ہو۔
[بدائع الصنائع: 194/6 ، الدر المختار: 307/5 ، الشرح الصغير: 94/4 ، معنى المحتاج: 361/4 ، المغنى: 543/5]
(راجح) امام شافعیؒ وغیرہ کا موقف راجح ہے کیونکہ یہی أقرب إلی الحدیث ہے نیز جمہور علما بھی اسی کے قائل ہیں ۔
[مزيد تفصيل كے ليے ملاحظه هو: سبل السلام: 1236/3 ، قفو الأثر: 1116/3 ، حجة البالغة: 103/2]
حاکم وقت کے لیے جائز ہے کہ وہ بنجر (یا بے آباد ) زمین ، کان یا پانی کے ذخائر کا کچھ حصہ اُس شخص کو عطا کر دے جس کو عطا کرنے میں مصلحت ہو
➊ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ وہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی اُس زمین سے
التى أقطعه رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم
”جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عطا فرمائی تھی“
گٹھلیاں گھر لایا کرتی تھیں ۔
[بخاري: 5224 ، كتاب النكاح: باب الغيرة ، مسلم: 2182]
➋ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
أراد النبى صلى الله عليه وسلم أن يقطع من البحرين
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین میں کچھ قطعات اراضی بطور جاگیر (انصار کو ) دینے کا ارادہ کیا“
تو انصار نے عرض کیا کہ ہم تب لیں گے کہ آپ ہمارے مہاجر بھائیوں کو بھی اسی طرح کے قطعات عنایت فرمائیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد (دوسرے لوگوں کو ) تم پر ترجیح دی جایا کرے گی تو اس وقت تم صبر کرنا۔ یہاں تک کہ ہم سے (آخرت میں آ کر ) ملاقات کرو ۔
[بخاري: 2376 ، كتاب المساقاة: باب القطائع]
➌ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم أقطعه أرضا بحضر موت
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حضر موت کے علاقے میں زمین عطا کی ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 2631 ، كتاب الخراج: باب فى إقطاع الأرضين ، ابو داود: 3058 ، ترمذي: 1381 ، بيهقى فى السنن الكبرى: 144/6]
➍ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اس اور اس طرح زمین عطا کی ۔“
[أحمد: 192/1]
معاون کے متعلق دو بظاہر متعارض روایات ہیں:
➊ حضرت أبیض بن حمال رضی اللہ عنہ نے سوال کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نمک کی کان عنایت فرما دی (یہ دیکھ کر ) اہل مجلس سے ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ نے تو اسے دائمی منفعت عطا فرما دی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے (کان) واپس لے لی ۔“
[حسن: صحيح ابن ماجة: 2006 ، ترمذي: 1380 ، كتاب الأحكام: باب ما جاء فى القطائع ، ابو داود: 3064 ، ابن حبان: 1140 – الموارد ، ابن ماجة: 2475]
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ کو ساحل سمندر کی نشیب و فراز والی جگہ پر کانیں عنایت فرمائیں ۔
[حسن: صحيح ابو داود: 2632 ، كتاب الخراج: باب فى إقطاع الأرضين ، ابو داود: 3062 ، مؤطا: 519 ، الفتح الرباني: 139/15]
ان احادیث میں تطبیق اس طرح دی گئی ہے کہ معادن کی دو قسمیں ہیں:
➊ معادن باطنه: جن کے حصول میں محنت و مشقت درکار ہو مثلاً سونا ، چاندی ، لوہا اور تانبا وغیرہ۔
➋ معادن ظاهره: جن میں مشقت نہ ہو مثلاََ نمک ، تیل اور سرمہ وغیرہ۔
تو دونوں احادیث میں تطبیق اس طرح ہو گی کہ حکمران معادن باطنہ تو عنایت کر سکتا ہے جیسا کہ حضرت بلال بن حارث رضی اللہ عنہ کو دی جبکہ معادن ظاہرہ عنایت نہیں کر سکتا جیسا کہ حضرت أبیض رضی اللہ عنہ سے واپس لے لی۔
[مزيد تفصيل كے ليے ملاحظه هو: حجة البالغة: 104/2 ، الفقه الإسلامي وأدلته: 4647/6 ، الأحكام السلطانية للماوردي: ص/189]
◈ معدن اور رکاز میں یہ فرق ہے کہ معدن زمین کا ایک جزء ہوتی ہے جبکہ رکاز جزء نہیں ہوتا بلکہ عارضی دفینہ ہوتا ہے۔
[تبيين الحقائق: 287/1 ، الأموال ونظرية العقد للد كتو نظرية العقد للد كتور محمد يوسف موسيٰ: ص/194]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1