ناجائز بیع کرنے والوں کو بھی فسخ کا اختیار حاصل ہے اور جس نے بغیر دیکھے کچھ خریدا ہو اسے بھی دیکھنے کے بعد اختیار ہو گا
اگر تو ممانعت ایسے فساد کی متقاضی ہو جو بطلان کے ہم معنی ہے (جیسا کہ اصول میں ثابت ہے ) توبیع کا وجود نہ ہونے کی مانند ہی ہو گا اور یہ ان دونوں میں سے کسی کے لیے بھی لازم نہیں ہو گی اور اختیار کے ساتھ فسخ کر دینا ایسے فسخ کے ہم معنی ہو گا جو غیر لازم ہے۔ اور اگر ممانعت فساد کی متقاضی نہ ہو تو بیع کا وقوع ان صورتوں میں سے کسی بھی صورت پر ہو جائے گا اگر وہ دونوں اس بیع کے ساتھ راضی ہوں اور شرعی مقصد (باہمی رضا مندی) پورا ہو جائے اور اگر وہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک بھی شریعت کی مخالفت ہو جانے کی وجہ سے راضی نہ ہو تو (سمجھ لو ) مقصد فوت ہو گیا۔
[الروضة الندية: 254/2]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
من اشترى مـا لـم يره فله الخيار إذا رآه
”جس نے بغیر دیکھے کچھ خریدا تو اسے وہ چیز دیکھ لینے کے بعد اختیار ہے۔“
[دار قطني: 4/3 ، بيهقي: 268/5 ، اس كي سند ميں عمر بن ابراهيم كردي راوي ضعيف هے۔ امام ذهبيؒ نے اسے كذاب كہا ہے اور خطيب بغداديؒ نے اسے غير ثقه قرار ديا هے۔ المغني: 462/2 ، تاريخ بغداد: 202/11 ، ميزان الاعتدال: 179/3]
اس حدیث کے ضعف کی وجہ سے اس سے استدلال تو درست نہیں البتہ اس بیع میں دھوکہ بہر حال موجود ہے اور غرر و دھوکہ سے ممانعت کی تمام احادیث اس مسئلے میں بھی مفید ہیں۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ :
نهي عن بيع الغرر
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دھوکے کی بیع سے منع فرمایا ہے ۔“
[مسلم: 1513 ، كتاب البيوع: باب بطلان بيع الحصاة…. ، أبو داود: 3376 ، ترمذي: 1230 ، نسائي: 262/7 ، ابن ماجة: 2194 ، أحمد: 376/2 ، شرح السنة: 297/4]
اسی طرح باہمی رضامندی بھی بیع کی صحت کے لیے شرط ہے اگر مشتری سودے کو دیکھنے کے بعد رضامند نہ ہو تو شرط مفقود ہونے کی وجہ سے بھی بیع فسخ ہو جائے گی۔