دھوکے کی وجہ سے مشتری سودا رد کر سکتا ہے اور اس کی ایک صورت یہ ہے کہ ایسا جانور جس کے تھنوں میں دودھ روکا گیا ہو وہ اس جانور کے ساتھ کھجوروں کا ایک صاع بھی واپس کرے گا یا جس پر دونوں راضی ہو جائیں
➊ جیسا کہ پیچھے حدیث ذکر کی گئی ہے کہ :
ثم وجد به عيبا فرده بالعيب
”پھر وہ شخص اس میں کوئی عیب دیکھے تو اس عیب کی وجہ سے اسے واپس لوٹا دے ۔“
[ابو داود: 3510]
➋ اور باہمی رضا مندی جو صحتِ بیع کے لیے شرط ہے وہ یہاں مفقود ہے۔
➊ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تـصـروا الإبل والغنم فمن ابتاعها بعد فهو بخير النظرين بعد أن يحلبها إن شاء أمسكها وإن شاء ردها وصاعا من تمر
”اونٹوں اور بھیڑ بکریوں کے تھنوں میں دودھ کو روک کر نہ رکھو (اگر کسی نے دھوکہ میں آکر ) کوئی ایسا جانور خرید لیا تو اسے دودھ دوہنے کے بعد دونوں اختیارات ہیں چاہے تو جانور کو رکھ لے اور چاہے تو واپس کر دے اور ایک صاع کھجور اس کے ساتھ دودھ کے بدلے دے دے ۔“
[بخاري: 2148 ، كتاب البيوع: باب النهى للبائع أن لا يحفل الإبل والبقر والغنم ، مسلم: 1515 ، ابو داود: 3443 ، نسائي: 4487 ، أحمد: 242/2 ، مؤطا: 683/2 ، بيهقي: 318/5]
ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
فهو بالخيار ثلاثة أيام
”اسے تین دن اختیار ہے ۔ “
[مسلم: 1524]
➋ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
من اشترك شاة محفلة فردها فليرد معها صاعا
”جو شخص ایسی بکری خریدے جس کا دودھ تھنوں میں روک دیا گیا ہو ، پھر وہ اسے واپس کرے تو اسے چاہیے کہ اس کے ساتھ ایک صاع بھی واپس کرے۔ ایک روایت میں یہ لفظ زائد ہیں: من تمر ”کھجور سے (ایک صاع دے) ۔“
[بخاري: 2164 ، 2149]
مصراۃ: سے مراد ایسی اونٹنی ، گائے یا بکری ہے جس کے تھنوں میں اس کا دودھ روک لیا گیا ہو (تا کہ خریدارا سے دو دھیل جانور سمجھ کر دھوکہ کھاتے ہوئے اس کی قیمت زیادہ ادا کرے)۔
[النهاية: 27/3]
(ابن مسعود رضی اللہ عنہ ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ) انہوں نے گذشتہ حدیث کے مطابق ہی فتوی دیا ہے۔
(جمہور ، شافعیؒ ، احمدؒ ، اسحاقؒ) اسی کے قائل ہیں۔ صحابہ میں اس کا کوئی مخالف نہیں ، تابعین اور ان کے بعد بے شمار لوگوں نے اسی کے مطابق فتوی دیا ہے اور انہوں نے دودھ دوہنے کی کمی بیشی سے صرفِ نظر کرتے ہوئے کھجور کا ایک صاع لوٹانا ہی لازم قرار دیا ہے۔
(احناف) اس عیب کی وجہ سے بیع کو فسخ کرنے کا کوئی اختیار نہیں اور نہ ہی کھجور کا کوئی صاع لوٹانا واجب ہے۔
(زفرؒ ) انہوں نے جمہور کے قول کے مطابق فتوی دیا ہے لیکن کھجور کے ایک صاع یا گندم کے نصف صاع کی ادائیگی کے درمیان اختیار دیا ہے ۔
[المغنى: 216/6 ، الإنصاف: 399/4 ، بداية المجتهد: 144/2 ، المبسوط: 38/13 ، الأم: 82/3 ، الحاوى: 236/5]
اس حدیث کو رد کرنے کے لیے احناف نے یہ عذر پیش کیا ہے کہ اس حدیث کے راوی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ، فقیہ نہیں تھے اس لیے ان کی وہ روایت جو قیاسِ جلی کے خلاف ہو گی قابل قبول نہیں ہو گی۔ حالانکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بہت زیادہ احادیث کے حافظ تھے۔ علاوہ ازیں ان کے دعوے کا رد اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ اس حدیث کو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی روایت کیا ہے جو ان کے نزدیک بھی فقہ اور اجتہاد میں امام تھے ۔
[مزيد تفصيل كے ليے ملا حظه هو: فتح الباري: 102/5 – 106 ، نيل الأوطار: 597/3]
(ابن قیمؒ) احناف کے موقف کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حقیقت میں اصول صرف دو ہی ہیں کلام اللہ اور کلام رسول اللہ جو ان کے علاوہ ہیں انہیں بھی ان کی طرف ہی لوٹایا جائے گا پس سنت (حدیثِ مصراۃ ) تو اصل قائم بنفسہ ہے اور قیاس فرع ہے تو اصل کو فرع کے بدلے کیسے رد کیا جا سکتا ہے (اس طرح انہوں نے قاطع و ساطع دلائل کے ذریعے احناف کا رد کرتے ہوئے جمہور کے مؤقف کو ثابت کیا ہے ) ۔
[أعلام الموقعين: 330/2]
(ابن عبد البرؒ ) یہ حدیث تصریہ (دودھ روکنے ) کی حرمت اور اس سے اختیار کے ثبوت پر ایک عظیم دلیل ہے ۔
[الاستذكار: 88/21]
چونکہ یہ معاملہ حقوق العباد سے متعلقہ ہے اس لیے اسے آدمی کے ہی سپرد کیا جائے گا وہ اگر معاوضہ لینا چاہے تو یہ بھی درست ہے اور اگر کچھ ساقط کرنا چاہے اور کچھ لینا چاہے تو یہ بھی مباح ہے اور اگر مکمل ہی ساقط کرنا چاہے تو یہ بھی اس کی صوابدید پر موقوف ہے۔