الخراج بالضمان: منافع و ذمہ داری کا شرعی اصول
تحریر: عمران ایوب لاہوری

نفع ضمانت کے ساتھ ہی ہے
الخراج: ایسے فوائد و منافع جو فروخت شدہ چیز سے حاصل ہوتے ہیں۔ بالضمان: (یہ منافع) اُس کفالت و ذمہ داری کے عوض ہیں جو اُس پر لازم ہیں۔
[نيل الأوطار: 595/3]
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی نے کوئی زمین خریدی اور اسے استعمال کیا یا جانور خریدا اور اس نے بچے کو جنم دیا یا جانور خریدا اور اس پر سوار ہوا یا غلام خریدا اس سے خدمت لی پھر اس میں کوئی نقص و عیب پایا تو اس کے لیے اس غلام کو واپس کرنے کی گنجائش ہے اور جتنا فائدہ اس سے حاصل کیا ہے اس کے عوض اس پر کوئی چیز نہیں ۔ اس لیے کہ اگر یہ چیز فسخ اور عقد کی مدت کے درمیان تلف ہو جاتی تو اس کی ذمہ داری خریدار پر ہوتی تو پھر اس کی آمدن کا بھی وہی حق دار ہے۔
➊ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
الخراج بالضمان
”آمدن (منافع ) ضمان (کفالت) کا عوض ہیں ۔“
[حسن: إرواء الغليل: 1315 ، ابو داود: 3508 ، كتاب البيوع: باب فيمن اشترك عبدا فاستعمله ثم وجد به عيبا ، دار قطني: 53/3 ، حاكم: 15/2 ، تلخيص الحبير: 22/3 ، ترمذي: 1285 ، نسائي: 4490 ، ابن ماجة: 2242 ، شرح السنة: 163/8]
➋ ایک روایت میں ہے کہ ایک آدمی نے غلام خرید کر اس سے مزدوری کروائی پھر اس نے کسی عیب کی وجہ سے اسے واپس لوٹا دیا تو فروخت کنندہ نے غلام سے حاصل کردہ مزدوری کی واپسی کا مطالبہ کیا اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الغلة بالضمان
”آمدنی کا مالک وہ ہو گا جو اس کا ذمہ دار ہو گا ۔“
[حسن: صحيح ابن ماجة: 1822 ، ابو داود: 3510 أيضا ، ابن ماجة: 2243 ، أبو يعلى: 82/8 ، ابن حبان: 1126 ، دارقطني: 53/3 ، حاكم: 15/2 ، شرح السنة: 320/4]
(شافعیؒ) مشتری ہی فوائد اصلیہ و فرعیہ کا مالک ہو گا۔
(احناف) خریدار صرف فرعی فوائد کا ہی مستحق ہو گا (مثلاً کرایہ وغیرہ) اور اصلی فوائد (مثلا اولاد اور پھل وغیرہ) اسے خریدی ہوئی چیز کے ساتھ ہی واپس لوٹانے ہوں گے۔
(مالکؒ) فوائد اصلیہ میں فرق کیا جائے گا یعنی اُون اور بال وغیرہ کا تو خریدار مستحق ہو گا لیکن اس کے بچے کا نہیں۔
[بداية المجتهد: 150/2 ، الإنصاف: 412/4 ، حلية العلماء: 252/4 ، الأم: 55/3 ، المغنى: 226/6 ، المبسوط: 168/13]
(راجح) امام شافعیؒ کا مؤقف اقرب الی الحدیث ہے۔
[سبل السلام: 1097/3]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے