بائع پر اپنے مال کا عیب واضح کرنا واجب ہے ورنہ مشتری کے لیے بیع فسخ کرنے کا اختیار ہوگا
لغوی وضاحت: لفظِ خیارات خیار کی جمع ہے ۔ باب اِختار ، تَخَيْرَ (افتعال ، تفعل ) اختیار ہونا ، انتخاب کرنا۔ باب خَيْرَ (تفعيل ) اختیار دینا ۔
[القاموس المحيط: ص/ 351 ، المنجد: ص/226]
شرعی تعریف: بیع کو قائم رکھنے یا فسخ کرنے کا اختیار طلب کرنا اور اس کی مختلف انواع و اقسام ہیں مثلاً خیار مجلس اور خیار شروط وغیره ۔
[سبل السلام: 1106/3 ، نيل الأوطار: 561/3]
➊ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
المسلم أخوا المسلم لا يحل لمسلم باع من أخيه بيعا وفيه عيب إلا بينه
”مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ، کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے ایسی بیع کرے جس میں عیب ہو الا کہ وہ اسے بیان کر دے ۔“
[صحيح: إرواء الغليل: 1321 ، ابن ماجة: 2246 ، كتاب التجارات: باب من باع عيبا فليبينه ، حاكم: 8/2 ، طبراني كبير: 317/17 ، تلخيص الحبير: 22/3 ، مجمع الزوائد: 80/4]
➋ حضرت واثلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا يحل لأحد أن يبيع شيئا إلا بين ما فيه ولا يحل لأحد يعلم ذلك إلا بينه
”کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ کوئی چیز فروخت کرے اِلا کہ اس کی حقیقت بیان کر دے اور نہ ہی کسی کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ اسے (یعنی عیب کو جانتے ہوئے بھی فروخت کر دے) اِلا کہ اس کی وضاحت کر دے ۔“
[احمد: 491/3 ، حاكم: 9/2 – 10 ، بيهقي: 320/5]
➌ حضرت عداء بن خالد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع نامہ لکھ دیا تھا کہ یہ وہ کاغذ ہے جس میں محمد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عداء بن خالد سے خریدنے کا بیان ہے۔ یہ بیع مسلمان کی مسلمان کے ہاتھ ہے ، نہ اس میں کوئی عیب ہے ، نہ کوئی فریب ، نہ فسق و فجور اور نہ کوئی بد باطنی ہے۔
[بخارى تعليقا: قبل الحديث: / 2079 ، كتاب البيوع: باب إذا بين البيعان ولم يكتما و نصحا ، ترمذى: 1216 ، ابن ماجة: 2251]
➍ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من غشنا فليس منا
”جس نے ہم سے دھوکہ کیا وہ ہم میں سے نہیں ۔“
[مسلم: 102 ، كتاب الإيمان: باب قول النبى من غشنا فليس منا ، ابو داود: 3452 ، ترمذي: 315 ، ابن ماجة: 2224 ، أبو عوانة: 57/1 ، أحمد: 242/2 ، ابن منده: 550 ، بيهقي: 320/5 ، حاكم: 908/2]
یہ تمام دلائل اس بات کا ثبوت ہیں کہ کوئی بھی معیوب چیز بغیر عیب بیان کیے فروخت کرنا ناجائز ہے۔ اس سے خریدار کے لیے بیع فسخ کرنے کا اختیار ثابت ہو جاتا ہے لیکن اگر وہ اسی پر راضی ہو جائے تو بیع درست ہو گی کیونکہ صحتِ بیع کے لیے دونوں کی رضامندی ہی کافی ہے تا ہم بائع غیر شرعی بیع کی وجہ سے گناہ گار ضرور ہو گا۔