بیمہ (انشورنس) کا حکم
تحریر: عمران ایوب لاہوری

بیمہ (انشورنس) کا حکم
بیمہ اصل میں انگریزی زبان کے لفظ (Insure) سے ماخوذ ہے۔ لغوی اعتبار سے اس کا معنی ”یقین دہانی“ ہے۔ چونکہ بیمہ کرانے والے کو مستقبل میں نقصانات کی تلافی اور خطرات سے حفاظت کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے اس لیے اسے انشورنس (Insurance) کا نام دیا گیا ہے۔ اور بیمہ کمپنی کو بھی اسی لیے انشورنس کمپنی کہتے ہیں کیونکہ وہ بیمہ کرانے والے کو یہ یقین دہانی کراتی ہے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہوتا ہے جو بیمہ کرانے والے اور بیمہ کمپنی کے درمیان طے ہوتا ہے۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ بیمہ کمپنی ، جس میں بہت سے سرمایہ دار شریک ہوتے ہیں اسی طرح جس طرح تجارتی کمپنیاں ہوتی ہیں ، بیمہ کرانے والے سے ایک بیمہ رقم بلاقساط وصول کرتی رہتی ہے اور ایک معینہ مدت کے بعد وہ رقم اسے یا اس کے پسماندگان کو حسب شرائط واپس کر دیتی ہے۔ اس کے ساتھ ایک مقررہ شرح فیصد کے حساب سے اصل رقم کے ساتھ کچھ مزید رقم بطور سود دیتی ہے گو اس رقم کا نام ان کی اصطلاح میں رِبا یا سود نہیں بلکہ بونس یعنی منافع ہے۔
کمپنی کا مقصد اس رقم کے جمع کرنے سے یہ ہوتا ہے کہ اسے دوسرے لوگوں کو بطور قرض دے کر ان سے اعلی شرح پر سود حاصل کرے یا کسی تجارت میں لگا کر یا کوئی جائداد خرید کر اس سے منافع حاصل کرے اس کے شرکاء اپنی ذاتی رقم خرچ کئے بغیر کثیر رقم بصورت سود یا منافع حاصل کرتے ہیں۔ اور اسی سود یا منافع میں سے بیمہ کرانے والے کو حصہ دیتے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ کسی درجے میں ان لوگوں کا مقصد مصیبت زدہ یا پریشان حال افراد کی امداد بھی ہوتا ہو۔ لیکن اصل مقصد وہی ہوتا ہے جو اوپر بیان کر دیا گیا ہے۔ بیمہ کرانے والے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس کا سرمایہ محفوظ رہے اور اس میں اضافہ بھی ہو۔ اس کے علاوہ اس کے پسماندگان کو امداد حاصل ہو یا ناگہانی حادثات کی صورت میں اس کے نقصانات کی تلافی ہو جائے۔
بیمہ کی بڑی بڑی تین قسمیں ہیں:
زندگی کا بیمہ:
زندگی کا بیمہ تو مکمل جسم کا بیمہ ہوتا ہے لیکن آج کل انفرادی اعضاء مثلا ہاتھ ، سر اور ٹانگوں وغیرہ کے بیمہ کا اندراج بھی بکثرت ہوتا جارہا ہے۔
املاک کا بیمہ:
اس بیمہ میں عمارت ، کارخانہ ، موٹر اور جہاز وغیرہ جیسی دیگر اشیاء کا بیمہ شامل ہے۔
ذمہ داریوں کا بیمہ:
اس میں بچوں کی تعلیم اور شادی وغیرہ کا بیمہ شامل ہیں۔ بیمہ کمپنی ان کاموں کو سرانجام دینے کی ذمہ دار ہوتی ہے۔
خلاصہ: یہ ہے کہ بیمہ کی کوئی بھی صورت ہو اور کوئی بھی قسم ہو ہر صورت اور ہر قسم ناجائز ہے۔ کیونکہ یہ سود لینے ، سودی کاروبار میں تعاون کرنے اور جوئے پر مشتمل ہیں۔ سود لینا اس طرح کہ بیمہ کرانے والا جتنی رقم ادا کرتا ہے اسے اس سے زیادہ رقم بغیر کسی مشقت کے منافع کی صورت میں ادا کی جاتی ہے جو کہ فی الحقیقت سود ہوتا ہے۔ سودی کاروبار میں تعاون اس لیے کیونکہ بیمہ کمپنی میں شریک سرمایہ دار اس رقم سے سودی کاروبار کرتے ہیں۔ اور جوا اس لیے کیونکہ بیمہ کرانے والے اور بیمہ کمپنی دونوں کو اس چیز علم نہیں ہوتا کہ ان میں سے کسے نقصان اٹھانا پڑے گا۔ قارئین کے مزید استفادہ کے لیے آئندہ سطور میں مولانا عبید اللہ رحمانی مبارکپوریؒ کا تفصیلی فتوی درج کیا جا رہا ہے۔
(مولانا عبید اللہ رحمانی مبارکپوریؒ) میرے نزدیک ان لوگوں کا قول صحیح ہے جو زندگی کا بیمہ کرانے کو ناجائز کہتے ہیں اور وہ لوگ غلطی پر ہیں جنہوں نے اس کے جواز کا فتوی دیا ہے۔
انسان یا جانور کی زندگی یا جائداد کے بیمہ کرنے کی حقیقت پر غور کیا جائے تو سوال کا جواب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا کہ :
(انشورنس ) بیمہ کرانے کو جائز بتانا سود کو یا قمار کو حلال کرنا ہے۔
بیمہ کمپنیوں کا اصول ہے کہ زندگی کا بیمہ کرانے والا یا بیمہ کرایا ہوا جانور بیمہ کی معینہ مدت سے قبل مر جائے یا بیمہ کرائی ہوئی جائیداد کسی ناگہانی آفت سے مقررہ مدت کے اندر ضائع ہو جائے تو بیمہ کی پوری مقررہ رقم اس کے ورثاء کو یا جائداد اور جانور کے مالک کو مل جاتی ہے اور اگر بیمہ کرانے والا یا جانور یا جائداد ، مقررہ مدت تک زندہ اور محفوظ رہے تو کل جمع کردہ رقم مع سود کے بیمہ کرانے والے کو یا جائداد کے مالک کو ملتی ہے اور اگر کچھ رقم جمع کرنے کے بعد بیمہ کرانے والا مسلسل دو سال تک مقررہ قسطیں ادا کرنے سے قصداً انکار کر دے یا مجبوراً ادا نہ کر سکے تو یہ بیمہ کمپنی ادا شدہ قسطوں کو ضبط کر لیتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ مقررہ مدت کے اندر مر جانے یا بیمہ کردہ چیز کے تلف ہو جانے کی صورت میں اور اسی طرح مقررہ مدت تک زندہ اور محفوظ رہنے کی صورت میں بیمہ کمپنیاں بیمہ کرانے والوں کو یا ان کے ورثاء کو ان کی جمع کردہ رقم سے زائد جو کچھ دیتی ہیں اس کی کیا حیثیت اور نوعیت ہے؟ اور وہ کہاں سے آتا ہے اور کیونکر آتا ہے؟
ظاہر ہے وہ صدقہ و خیرات یا تحفہ و ہدیہ تو ہے نہیں اور نہ ہی قرض ہے۔ پھر دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں ایک یہ کہ بیمہ کمپنی جمع شده روپیہ دوسروں کو سود دیتی ہو اور اس میں سے ایک معین حصہ بیمہ کرانے والوں میں بانٹ دیتی ہو جیسا کہ عام بنکوں کا طریقہ ہے یا یہ کہ بیمہ کمپنی خود ہی اس روپیہ سے تجارت کرے اور اسکے منافع سے ایک معین اور طے شدہ حصہ بیمہ کرانے والوں کے حساب میں جمع کرتی رہے اور یہ بلاشبہ سود ہے کیونکہ اصل رقم کے علاوہ طے شدہ منافع کے ادا کرنے ہی کا نام سود ہے۔
اور یہ خیال و توجیہ کہ بیمہ کرانے والے اس تجارت میں شریک یا رب المال اور مضارب کی حیثیت رکھتے ہیں اور بیمہ کمپنی عامل و مضارب (بفتح را) کی حیثیت رکھتی ہے ، پس زائد رقم اس حیثیت سے بیمہ کرنے والوں کے لیے حلال و طیب ہو گی غلط اور باطل ہے اس لیے کہ اگر یہ صورت حلال ہو تو ان شرکاء یا ارباب اموال (بیمہ کرنے والوں ) کو ایک طے شدہ معینہ رقم نہیں ملنی چاہیے بلکہ کمی اور بیشی کے ساتھ نفع اور نقصان دونوں میں شریک رہنا چاہیے اور یہاں ایک طے شدہ معین نفع (زائد رقم) ہی ملتا ہے اور بیمہ کمپنیاں عام طور پر اصل رقم سے زائد جو کچھ دیتی ہیں اس کی شرح اور مقدار پہلے ہی سے معین کر دیتی ہیں اور اگر کوئی کمپنی اس کو اصولا معین نہ کرتی ہو بلکہ زائد رقم کو سالانہ نفع اور نقصان کا لحاظ کر کے فی صد پر رکھتی ہو تب بھی یہ طریقہ وجہ جواز نہیں ہو سکتا اس لیے کہ اس کا روبار میں نقصان کا سوال ہی نہیں آنے دیا جاتا نیز بیمہ کمپنیوں کے متفقہ اصولوں میں سے بعض ایسے بھی اصول ہیں جن کی وجہ سے یہ سارا کاروبار اور ڈھانچہ ہی شرعاََ ناجائز ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ پہلے بیمہ کرانے والوں کو بعد کے بیمہ کرانے والوں کا روپیہ دیا جا تا ہو ۔ لیکن اس طرح ایک کی رقم دوسرے کو دے دینے کا حق تو شرعاً کسی کو بھی نہیں ہے ایسی صورت میں جواز کا فتوی دینا سود یا قمار کا فتوی دیتا نہیں تو اور کیا ہے؟
اور کچھ رقم جمع کرنے کے بعد بقیہ اقساط کے قصدآ یا مجبوراً ادا نہ کرنے کی صورت میں ادا شدہ قسطوں کا ضبط کر لینا کس شرعی ضابطہ کی رو سے ہے؟ یہ باطل طریقے سے مال کھانا نہیں تو اور کیا ہے؟ نیز بیمہ کرانے والوں کے لیے ایسے کاروبار کرنے والوں کو روپیہ دینا جو بغیر کسی شرعی سبب کے ان کی رقم ایک غلط اصول کی رو سے ہضم کر لیں کہاں سے شرعاً جائز ہے؟
بہر حال انشورنس کا کاروبار شرعاً ناجائز ہے یہ یورپ کے نظام سرمایہ داری کا ایک طبعی تقاضا ہے اور اس کا تصور بھی اسلامیت سے سخت بعید ہے پس زندگی وغیرہ کا بیمہ کرانا کیونکر ناجائز نہ ہو گا؟
[مزيد تفصيل كے ليے ملاحظه هو: رساله ، بيمه كي حيثيت اسلام كي نظر مي: ں ص/5 – 7]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے