بیع عینہ جائز نہیں
تحریر: عمران ایوب لاہوری

بیع عینہ جائز نہیں
”بيع عينه“ یہ ہے کہ آدمی کوئی چیز مقررہ قیمت پر معین وقت تک کے لیے فروخت کرے جب یہ معین میعاد پوری ہو جائے تو خریدار سے وہی چیز کم قیمت پر خرید لے کہ زائد رقم اس کے ذمہ باقی رہ جائے۔ اس کا نام عینہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ فروخت کردہ چیز (بعینہ ) وہی ہے اور اسی حالت میں حاصل ہو جاتی ہے اور اصل مال خریدار سے لوٹ کر فروخت کنندہ کے پاس پھر پہنچ جاتا ہے ۔
[سبل السلام: 1132/3]
➊ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
إذا تبايعتــم بالعينة وأخذتم أذناب البقر ورضيتم بالزرع وتركتم الجهاد سلط الله عليكم ذلا لا ينزعه حتى ترجعوا إلى دينكم
”جب تم بیع عینہ کرنے لگو گے ، بیلوں کی دمیں پکڑ لو گے ، کھیتی باڑی میں ہی راضی ہو جاؤ گے اور جہاد ترک کر دو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ذلت مسلط کر دیں گے اور اس ذلت کو تم سے اس وقت تک دور نہیں کریں گے جب تک تم اپنے دین کی طرف پلٹ نہ آؤ۔“
[صحيح: الصحيحة: 11 ، ابو داود: 3462 ، أحمد: 27/7 ، تلخيص الحبير: 19/3 ، طبراني كبير: 13583 ، بيهقي: 316/5]
➋ ایک عورت نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا کہ میں نے آٹھ سو درہم اُدھار کے عوض زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے ایک غلام کی بیع کی اور میں نے اس غلام کو چھ سو درہم نقد کے بدلے اس سے خرید لیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ”تم نے بہت بری خرید و فروخت کی ہے۔“
[أحمد كما فى نصب الراية: 16/4 ، عبد الرزاق: 184/8 ، دارقطني: 52/3 ، بيهقي: 330/5]
(احمدؒ ، مالکؒ ، ابو حنیفہؒ) بیع عینہ جائز نہیں ہے۔
(شافعیہ) یہ بیع جائز ہے۔
[روضة الطالبين: 81/3 ، الأم: 48/3 ، المغنى: 260/6 ، كشاف القناع: 185/3 ، الهداية: 47/3]
(راجح) بیع عینہ جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں سود کو جائز کرنے کا حیلہ کیا جاتا ہے۔
امام ابن قیمؒ نے اس بیع کی ممانعت کو دلائل سے ثابت کیا ہے۔
[كما فى نيل الأوطار: 588/3]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے