سونے کی بیع سونے کے بدلے ، چاندی کی بیع چاندی کے بدلے ، گندم کی بیع گندم کے بدلے ، جو کی بیع جو کے بدلے ، کھجور کی بیع کھجور کے بدلے اور نمک کی بیع نمک کے بدلے حرام ہے الا کہ سب برابر اور نقد ہوں
لغوی وضاحت: لفظِ رِبَا باب رَبٰى يَرْبُو (نصر) سے مصدر ہے۔ اس کا معنی ”زیادتی اور سود“ مستعمل ہے۔
[القاموس المحيط: ص/ 1158 ، المنجد: ص/ 276]
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
أَن تَكُونَ أُمَّةٌ هِيَ أَرْبَىٰ مِنْ أُمَّةٍ [النحل: 92]
”اس لیے کہ ایک گروہ دوسرے گروہ سے بڑھا چڑھا جائے ۔“
اور ایک اور آیت میں ہے کہ :
فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ [الحج: 5]
”جب ہم اس پر بارشیں برساتے ہیں تو وہ اُبھرتی ہے اور پھولتی ہے۔“
شرعی تعریف: ➊ خرید و فروخت میں ایک جنس کے تبادلہ کے وقت زیادہ مقدار حاصل کرنا اور ہر قسم کی حرام بیع پر بھی اس کا طلاق ہوتا ہے۔
[فتح البارى: 36/5 ، سبل السلام: 1112/3]
➋ سود ایسا زائد مال ہے جو شرعی معیار کے مطابق کسی عوض سے خالی ہو اور دو بیع کرنے والوں میں سے کسی ایک کے لیے معاوضہ میں مشروط ہو۔
[القاموس الفقهى: ص/ 143]
➌ مالکیہ اور حنفیہ کے نزدیک ہر فاسد بیع بھی سود ہے۔
[أيضا]
سود کی حرمت کے دلائل
➊ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا [البقرة: 275]
”اور اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے۔“
➋ لَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ [البقرة: 275]
”سود خور لوگ نہ کھڑے ہوں گے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھو کر خبطی بنا دے۔“
➌ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [البقرة: 278 – 279]
”اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو ، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ “
➍ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے ، دینے والے ، اس کے تحریر کرنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی ہے نیز فرمایا: (گناہ کے ارتکاب میں ) یہ سب مساوی و برابر ہیں ۔“
[مسلم: 1598 ، بخاري: 2086 ، أحمد: 304/3 ، ابو داود: 333 ، ترمذي: 1206 ، ابن ماجة: 2277 ، شرح السنة: 54/8 ، بيهقي: 275/5]
➎ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الربا ثلاثة وسبعون بابا أيسرها مثل أن ينكح الرجل أمه
”سود کے تہتر (73) درجے ہیں سب سے کم تر درجہ اس گناہ کی مثل ہے کہ کوئی آدمی اپنی ماں کے ساتھ نکاح کرے ۔“
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 1845 ، ابن ماجة: 2275 ، حاكم: 37/2]
➏ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
درهم ربا ياكله الرجل وهو يعلم أشد من ست وثلاثين زنية
”سود کا ایک درہم جسے جانتے ہوئے آدمی کھا لے چھتیسں (36) مرتبہ بدکاری کرنے سے بھی برا ہے ۔“
[أحمد: 225/5]
➐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سات ہلاک کر دینے والی اشیا سے اجتناب کرو: (ان میں سے ایک یہ ہے ) ”سود کا کھانا ۔“
[بخاري: 6857 ، كتاب الحدود: باب رمى المحصنات]
➑ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ماظهر فى قوم الزنا والربا إلا أحلوا بأنفسهم عقاب الله
”جس قوم میں زنا اور سود پھیل جاتا ہے وہ اپنے نفسوں پر اللہ کا عذاب حلال قرار دے دیتے ہیں ۔“
[حسن لغيره: صحيح الترغيب: 1860 ، كتاب البيوع: باب الترهيب من الربا ، مسند أبى يعلى: 4981]
➒ سود کی حرمت پر اُمت کا اجماع ہے ۔
[موسوعة الإجماع: 429/1]
➊ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سونا سونے کے بدلے ، چاندی چاندی کے بدلے ، گندم گندم کے بدلے ، جو جو کے بدلے ، کھجور کھجور کے بدلے اور نمک نمک کے بدلے (یہ تمام اشیا) برابر برابر نقد بنقد (فروخت کی جائیں ):
فمن زاد أو ازداد فـقـد أربي ، الآخذ والمعطى فيه سواء
”پھر جو زیادہ لے یا زیادہ دے تو اس نے سودی کاروبار کیا۔ سود لینے والا اور دینے والا (دونوں گناہ میں ) برابر ہیں ۔“
[مسلم: 1584 ، كتاب المساقاة: باب الرباء ، أحمد: 49/3]
➋ اسی معنی میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے بھی حدیث مروی ہے۔
[مسلم: 1587 ، كتاب المساقاة: باب الصرف وبيع الذهب بالورق نقدا ، ترمذى: 1240 ، ابو داود: 3349 ، نسائى: 4560 ، ابن ماجة: 2254 ، أحمد: 314/5]
➌ حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تبيعوا الذهب بالذهب إلا وزنا بوزن
”سونے کو سونے کے بدلے صرف برابر برابر (وزن کے ساتھ ) ہی فروخت کرو۔“
[مسلم: 1591 ، ابو داود: 3351 ، ترمذي: 1255 ، نسائي: 279/7 ، شرح معاني الآثار: 73/4 ، بيهقى: 292/5]
جمہور فقہا کے نزدیک تجارت میں سود کی دو قسمیں ہیں:
➊ ربا الفضل: ایک جنس کی دو اشیا کو کمی بیشی کے ساتھ فروخت کرنا۔
➋ ربا النسيئه: اُس میں کمی بیشی تو نہ ہو لیکن ایک طرف سے نقد اور دوسری طرف سے ادھار کا معاملہ ہو۔
[المغنى: 1/4 ، أعلام المؤقعين: 135/2 ، بداية المجتهد: 129/2 ، بدائع الصنائع: 83/5]
گذشتہ احادیث میں ربا الفضل کی واضح حرمت موجود ہے لیکن مندرجہ ذیل احادیث بظاہر اس کے خلاف معلوم ہوتی ہیں:
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنما الربا فى النسيئة
”صرف سود ادھار میں ہی ہے۔“
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
لا ربا فى ما كان يدا بيد
”دست بدست خرید و فروخت میں سود نہیں ہے۔“
[بخاري: 2178 ، 2179 ، مسلم: 1569 ، نسائي: 281/7 ، ابن ماجة: 2257]
اس کا جواب یوں دیا گیا ہے:
➊ اس کا معنی یہ ہو گا کہ اُس سود سے زیادہ سخت کوئی نہیں ہے جو ادھار میں ہے:
لا ربا أشد إلا فى النسيئة
يعني لاء نفى الکمال ہو گا نہ کہ نفی الاصل ۔
➋ حدیث اسامہ کا مفہوم عام ہے کیونکہ اس میں مذکورہ چھ اجناس اور ان کے علاوہ تمام اشیا شامل ہیں۔ لیکن حدیث ابی سعید خاص ہے کیونکہ اس میں صرف مخصوص چھ اجناس ہی شامل ہیں۔
[فتح البارى: 382/4]
➌ امام حاکمؒ نے نقل فرمایا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے اس قول سے رجوع کر لیا تھا۔
[حاكم: 42/2 ، بيهقى: 286/5 ، المحلى: 417/7]
امام حازمیؒ نے بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا رجوع نقل کیا ہے۔
[الاعتبار: ص/406]
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ ان کے رجوع میں اختلاف ہے۔ گذشتہ حدیث سے اس پر استدلال ثابت نہیں لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کو جائز قرار دینے کے باوجود اس کی کراہت ثابت ہے ۔
[فتح البارى: 382/4]
◈ امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ سونے اور چاندی میں تمام قسم کا سونا و چاندی شامل ہے خواہ عمدہ ہو یا ردی ، صحیح ہو یا ٹوٹا ہوا ، زیور ہو یا ڈلی اور خالص ہو یا ملاوٹ شدہ اور اس پر اجماع ہے۔
[شرح مسلم: 14/6]
اور دوسری اشیا کو ان کے ساتھ ملانے میں اختلاف ہے
امام ابن حزمؒ فرماتے ہیں کہ مذکورہ چھ اشیا میں تفاضل کی حرمت پر اتفاق ہے جبکہ وہ ایک جنس کی ہوں ۔
[المحلى: 468/8]
لیکن اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ کیا ان چھ اشیا کے علاوہ بقیہ ایک جنس کی اشیاء مثلاً دالیں اور چاول وغیرہ کی بھی خرید و فروخت برابر برابر اور نقد بنقد کی جائے گی اور اگر کمی بیشی یا نقد و ادھار کا معاملہ ہو تو کیا ان میں بھی سود ہو گا؟
(اہل ظاہر ، ابن حزمؒ ) حدیث میں مذکور صرف چھ اشیا میں ہی سود ہے۔
(جمہور ، ابو حنیفہؒ ، احمدؒ ) ان چھ اجناس کے علاوہ جہاں بھی سود کی علت پائی جائے گی وہ سود ہی ہو گا۔
(مالکؒ) انہوں نے سود کی حرمت کو صرف خوراک کے ساتھ خاص کیا ہے۔
(ابن قیمؒ) یہ امام مالکؒ کی حمایت میں ہیں ۔
[روضة الطالبين: 40/3 ، الفقه الإسلامي وأدلته: 3706/5 ، سبل السلام: 1119/3 ، بداية المجتهد: 227/2 ، الحاوى: 82/5 ، أعلام الموقعين: 136/2]
(شاہ ولی اللهؒ ) فقہا کے نزدیک ان چھ اشیا کے علاوہ بھی سود ثابت ہو جاتا ہے۔
[حجة الله البالغة: 107/2]
(بغویؒ) علما کا اتفاق ہے کہ سود صرف انہی چھ اشیا میں ہے جن پر حدیث کی نص آئی ہے ۔
[شرح السنة: 57/8]
(نواب صدیق حسن خانؒ) دوسری اشیا کو ان اشیا کے ساتھ ملانے کی کوئی دلیل موجود نہیں ۔
[الروضة الندية: 235/2]
(شوکانیؒ ) دوسری اجناس کو ان (چھ اشیا) کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا ۔
[السیل الجرار: 64/3 – 65]
جو لوگ بقیہ اشیا کو بھی ان چھ اجناس کے ساتھ ملحق کرنے کے قائل ہیں ان کے پاس اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے جو دلائل ہیں ان میں ان کے مقصود کو ثابت کرنے کے لیے کوئی واضح حجت موجود نہیں مثلاً:
➊ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مزابنہ سے منع کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ کوئی اپنے باغ کے پھل کو اس طرح فروخت کرے کہ اگر کھجور کے درخت ہوں تو انہیں خشک کھجور کے بدلے ماپ کر فروخت کرے اور تازہ انگور ہوں تو انہیں منقہ کے بدلے ماپ کر فروخت کرے اور اگر کھیت ہوں تو انہیں غلے کے بدلے ماپ کر فروخت کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (بیوع ) سے منع فرمایا ہے ۔
[بخاري: 2185 ، كتاب البيوع: باب بيع المزابنة ، مسلم: 1542 ، أحمد: 5/2 ، ابو داود: 3361 ، نسائي: 4534 ، ابن ماجۃ: 2265]
➋ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
نهي عن بيع اللحم بالحيوان
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیوان کے بدلے گوشت کی بیع سے منع فرمایا ہے ۔“
[حسن: إرواء الغليل: 1351 ، المشكاة: 2821 ، دار قطني: 266 ، حاكم: 35/2 ، بيهقي: 296/5]
اگرچہ تجارت کی ان قسموں میں ممانعت موجود ہے لیکن ان سے مذکورہ چھ اشیا کاحکم بقیہ اشیا میں ثابت نہیں ہوتا۔
(راجح) اہل ظاہر کا موقف راجح ہے کیونکہ اگر دوسری اشیا بھی ان میں شامل ہوتیں تو حدیث کے لفظ عام ہوتے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی خبر دے دیتے نیز اس کی علت نکالنے والوں نے بھی علت میں ہی اختلاف کیا ہے۔ والله اعلم
[مزيد تفصيل كے ليے ملاحظه هو: المحلي: 467/8 ، السيل الجرار: 64/3 ، سبل السلام: 1119/3 ، بداية المجتهد: 228/2]
اگر اجناس مختلف ہوں تو کمی بیشی جائز ہے جبکہ بیع نقد ہو
➊ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سونا سونے کے عوض ، گندم گندم کے عوض ، جو جو کے عوض ، کھجور کھجور کے عوض اور نمک نمک کے عوض ایک دوسرے کی طرح برابر برابر اور نقد بنقد (فروخت کیے جائیں ):
فإذا اختلف هذه الأصناف فبيعوا كيف شئتم إذا كان يدا بيد
”اگر یہ اجناس مختلف ہوں تو پھر جس طرح چاہو فروخت کر لو مگر قیمت کی ادائیگی نقد ہو ۔“
[مسلم: 1587 ، كتاب المساقاة: باب الصرف وبيع الذهب بالورق نقدا ، ترمذى: 1240 ، ابو داود: 3349 ، ابن ماجة: 2254 ، دارمي: 258/2 ، أحمد: 314/5]
➋ ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
أمرنا أن نبيع البر بالشعير والشعير بالبر يدا بيدا كيف شئنا
”اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم گندم کو جو کے عوض اور جو کو گندم کے عوض جیسے چاہیں فروخت کریں جبکہ وہ نقد بنقد ہوں ۔“
[أيضا]
➌ صحیح بخاری کی ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
وأمرنا أن نشترى الفضة بالذهب كيف شئنا
”اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ سونے کے عوض چاندی جیسے چاہیں خریدیں ۔“
[بخاري: 2175 ، 2182 ، مسلم: 1590 ، نسائي: 280/7 ، أحمد: 38/5 ، ابن حبان: 5014 ، بيهقي: 282/5]
تبادلہ کی جانے والی مقداروں کے برابر ہونے کا علم نہ ہونے کی صورت میں ایک جنس کی بیع بھی درست نہیں اگرچہ اس کے ساتھ کوئی اور جنس ملی ہو
➊ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
نهي رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الـصبـرة مـن التـمـر لا يعلم كيلها بالكيل المسمى من التمر
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجوروں کے ایسے ڈھیر کو جس کا ماپ نا معلوم ہو ، کھجوروں کے معین ماپ کے بدلہ میں فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے۔“
[مسلم: 1530 ، كتاب البيوع: باب تحريم بيع صبرة التمر ، نسائي: 4547]
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اُس وقت تک ایک جنس کی اشیا کی باہم بیع جائز نہیں جب تک کے برابری کا علم نہ ہو جائے ۔
➋ حضرت معمر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الطعام بالطعام مثلا بمثل
”اناج کے بدلے اناج برابر برابر ہو۔“
[مسلم: 1592 ، أحمد: 400/6 ، دار قطني: 24/3 ، بيهقي: 283/5]
➌ صحیحین میں اس معنی کی متعدد احادیث ہیں جن میں یہ ذکر ہے:
مثلا بمثل سواء بسواء وزنا بوزن
”ان تمام کو اس مسئلہ کے ساتھ منطبق کیا جا سکتا ہے۔“
حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے خیبر کے روز ایک ہار بارہ دینار کا خریدا اس میں سونا اور پتھر کے نگینے تھے۔ میں نے ان کو الگ کر دیا تو میں نے اس میں بارہ دینار سے زیادہ پایا۔ میں نے اس کا ذکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تبائع حتى تفصل
”جب تک ان کو الگ الگ نہ کر لیا جائے فروخت نہ کیا جائے ۔“
[مسلم: 1591 ، كتاب المساقاة: باب بيع القلادة فيها خرز و ذهب ، ابو داود: 3352 ، ترمذي: 1255 ، نسائي: 279/7 ، أحمد: 21/6 ، شرح معاني الآثار: 73/4 ، مشكل الآثار: 243/4 ، دار قطني: 3/3]
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ، امام شافعیؒ ، امام احمدؒ ، امام اسحاقؒ اور امام محمد بن حکم مالکیؒ حدیث کے ظاہری مفہوم کے ہی قائل ہیں ۔
(احناف ، ثوریؒ) کسی دوسری جنس کے ملنے کے ساتھ (تفاضل) کمی بیشی کے قائل ہیں اگرچہ علیحدہ سونا ، ہار وغیرہ کے سونے سے زیادہ مقدار میں ہو ۔
[حلية العلماء: 170/4 ، الحاوى: 113/5 ، المبسوط: 118/12 ، حاشية الدسوقى: 29/3 ، المغنى: 92/6 ، بداية المجتهد: 115/2]
(راجح) بلا تردد پہلا موقف ہی راجح ہے۔
[تلخيص الحبير: 20/3]