کچے پھلوں کی بیع اور بیانے کی بیع جائز نہیں
مخاضره باب حَاضَرَ يُخَاضِرُ (مفاعلة) سے مصدر ہے۔ اس کا معنی ”کچے پھل اور غلہ جات کو پکنے سے پہلے (درختوں پر ہی ) فروخت کر دینا ہے۔“
[المنجد: ص/309 ، القاموس المحيط: ص / 348 ، نيل الأوطار: 521/3]
➊ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
نهي رسول الله عن بيع المحاضرة
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مخاضرہ سے منع فرمایا ہے۔“
[بخاري: 2207 ، كتاب البيوع: باب بيع المخاضرة]
➋ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع الثمار حتى يبدو صلاحها نهي البائع والمبتاع
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بائع اور مشتری کو کچے پھلوں کی خرید و فروخت سے منع فرمایا ہے۔“
[بخاري: 2194 ، كتاب البيوع: باب بيع الثمار قبل أن يبدو صلاحها ، مسلم: 1534 ، ابو داود: 3367 ، نسائي: 262/7 ، أحمد: 56/2]
➌ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ لفظ ہیں:
لا تتبايعوا الثمار حتى يبدو صلاحها
”ایک دوسرے سے کچے پھلوں کی بیع نہ کرو ۔“
[أحمد: 13/5 ، مسلم: 1538 ، نسائي: 263/7 ، ابن ماجة: 2215]
بيع العربون یہ ہے کہ خریدار بائع کو بیع سے پہلے ایک درہم یا اس کی مثل کوئی چیز اس شرط پر دے کہ اگر اس نے سودا چھوڑ دیا تو وہ درہم بغیر کسی (عوض) کے بائع کا ہو جائے گا۔
[الروضة الندية: 204/2 ، سبل السلام: 1073/3 ، نيل الأوطار: 523/3 ، موطا: 609/2]
➊ عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ روایت ہے کہ :
نهى النبى صلى الله عليه وسلم عن بيع العربان
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیانے کی بیع سے منع فرمایا ہے۔“
[ضعيف: ضعيف ابن ماجة: 475 ، مؤطا: 609/2 ، ابو داود: 3502 ، ابن ماجة: 2192 ، ابن أبى شيبة: 205/4 ، شرح السنة: 135/8 ، أحمد: 183/2 ، شيخ احمد شاكرؒ نے اسے صحيح كها هے۔ مسند احمد بتحقيق احمد شاكر: 6723]
➋ حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ سے مروی جس روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیانے کی بیع کے متعلق دریافت کیا گیا تو فأحله ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جائز قرار دے دیا۔“ وہ ضعیف ہے۔
[ضعيف: ابن ابي شيبة: 23195 ، تلخيص الحبير: 39/3 ، اس كي سند ميں ابراهيم بن ابي یحیٰی راوي ضعيف هے۔ تهذيب التهذيب: 137/1 ، المجروحين: 105/1 ، الضعفاء للعقيلي: 62/1 ، الجرح والتعديل: 125/2 ، التاريخ الكبير: 323/1 ، الكامل لابن عدي: 219/1 ، ميزان الاعتدال: 57/1]
(جمہور ، مالکؒ ، شافعیؒ) یہ بیع باطل و ناجائز ہے۔
(احمدؒ) یہ بیع جائز ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی یہی قول مروی ہے ۔
[مؤطا: 610/2 ، المجموع: 335/9 ، المغنى: 313/4 ، ابن أبى شيبة: 7/5 ، الفقه الإسلامي وأدلته: 3501/5 ، تلخيص الحبير: 17/3 ، سبل السلام: 21/3]
(راجح) جمہور کا موقف راجح ہے۔
[نيل الأوطار: 524/3]