کچے کھیت کی اناج کے بدلے ، کچی کھجوروں کی چھوہاروں کے بدلے اور سال بھر کے لیے کرائے پر معاملے کی بیع جائز نہیں
محاقلة باب حَاقَلَ يُحَاقِلُ (مفاعلة) سے مصدر ہے۔ اس کا معنی ”کھیتی کو خوشے میں ہی فروخت کر دینا“ ہے۔ الْحَقُل ”قابل کاشت زمین کو کہتے ہیں ۔“
[النهاية: 416/1 ، المنجد: 170 ، القاموس المحيط: 887]
بالیوں میں کھڑی کھیتی کو غلے کے عوض فروخت کر دینا جیسے گندم کے کھیت کے بدلے گندم فروخت کرنا وغیرہ محاقلہ کہلاتا ہے۔
مزابنة باب زابَنَ يُزَائِنُ (مفاعلة) سے مصدر ہے۔ اس کا معنی ”ایک دوسرے سے ہٹانا اور درخت پر پھل بیچنا ۔“ مستعمل ہے۔ الزَبن ”گوشے“ کو کہتے ہیں ۔
[المنجد: ص/ 329]
درختوں پر لگے ہوئے پھل کو اُسی جنس کے اتارے ہوئے خشک پھل کے عوض فروخت کرنا مثلاً کھجوروں کے بدلے کھجور کے درخت پر لگی تازہ اور تر کھجوروں کی بیع اور انگور کے بدلے خشک انگور (یعنی کشمش) کی بیع وغیرہ مزابنہ کہلاتی ہے۔
[القاموس المحيط: ص/ 1084 ، ترمذي: 1224 ، كتاب البيوع: باب ما جاء فى النهي عن المحاقلة]
➊ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم نهي عن المحاقلة والمزابنة
”نبي صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع محاقلہ اور بیع مزابنہ سے منع فرمایا ہے ۔“
[بخاري: 2187 ، كتاب البيوع: باب بيع المزابنة ، ترمذى: 1290 ، نسائي: 3879 ، ابن ماجة: 2266 ، أحمد: 360/3]
➋ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ ”محاقله“ یہ ہے کہ :
أن يبغ الرجل الزرع بمائة فرق حنطة
”ایک شخص گندم کی کاشت کو ایک سو بیس (120) رطل گندم کے عوض فروخت کر دے ۔“
[مسلم: 1536]
➌ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی روایت میں ربیع مزابنہ کی تعریف یوں موجود ہے ۔
أن يبيـع ثـمـر حـائطه إن كان نخلا بتمر كيلا وإن كان كرما أن يبيعه بزبيب كيلا
”اپنے باغ کے پھلوں کو مثلاََ اگر وہ کھجوریں ہیں تو انہیں خشک کھجور کے عوض ماپ کر ، اگر وہ انگور ہیں تو ان کو منقے کے بدلے ماپ کر فروخت کیا جائے ۔“
[بخاري: 2205 ، كتاب البيوع: باب بيع الزرع بالطعام كيلا]
➍ ایک روایت میں ”بیع مزابنہ“ کی یہ تعریف موجود ہے کہ ”کھجوروں کے درخت پر کھجوریں ہوں ، ان کو خشک کھجوروں کے عوض متعیین ماپ کے ساتھ فروخت کیا جائے کہ اگر زیادہ ہو جائیں تو میرا حق ہے اور اگر کم ہو جائیں تو میرے ذمے ان کی ادائیگی ہو گی ۔“
[مسلم: 2849 ، كتاب البيوع: باب تحريم بيع الرطب بالشمر إلا فى العرايا]
ان دونوں بیوع کی حرمت کا سبب یہ ہے کہ دونوں کی صحیح مقدار کا علم نہیں ہو سکتا۔ یعنی تر میوہ خشک ہو کر کتنا رہ جائے گا؟
زیادتی کا بھی امکان ہے اور کمی کا بھی۔ دونوں صورتوں میں فریقین میں سے کسی ایک کو نقصان ہو سکتا ہے ۔
[تحفة الأحوذى: 473/4 ، شرح السنة: 436 ، 516 ، النهاية: 416/1]
معاومه باب عَاوَمَ يُعَاوِمُ (مفاعلة) سے مصدر ہے۔ اس کا معنی ”سال کے لیے کرائے پر معاملہ کرنا ہے۔“
[المنجد: ص/593]
ایک سال سے زیادہ مدت کے لیے ایک ہی عقد میں کھجوروں کی ان کے درختوں پر بیع کرنا ”بیع معاومہ“ کہلاتا ہے ۔
[الروضة الندية: 203/2]
➊ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
نهى رسول الله عن المحاقلة والمزابنة والمعاومة
”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع محاقلہ ، بیع مزابنہ اور بیع معاومہ سے منع فرمایا۔“
[مسلم: 1536 ، كتاب البيوع: باب النهي عن المحاقلة والمزابنة ]
➋ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
أنه نهى عن بيع السنين
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سالوں کی بیع کر لینے سے منع فرمایا ہے۔“
[صحيح: صحيح الجامع الصغير: 6932]
اس بیع میں دھوکہ یہ ہے کہ سودا ہو گیا لیکن درخت کے اوپر پھل کی کوئی گارنٹی نہیں ۔ وہ خشک ہو کر کم ہو جائے ، قحط پڑ جائے ، بارش نہ ہو یا سیلاب آجائے (کچھ بھی ہو سکتا ہے)۔ اس لیے جب پھل اترا ہوا سامنے موجود ہے اور معلوم وزن کے ساتھ ماپ تول کر بیع کی جائے تب درست ہے ورنہ نہیں۔
(جزریؒ ) یہ بیع اس لیے باطل ہے کیونکہ یہ ایسے بچے کی بیع کی طرح ہے جو ابھی پیدا ہی نہیں ہوا۔
[النهاية: 323/3]