حاملہ کے حمل، ملامسہ اور منابذہ کی بیع ناجائز ہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

حاملہ کے حمل کی بیع ایک دوسرے کی طرف اپنا مال پھینک کر بیع کرنا اور مال کو ہاتھ لگا کر سودا کرنا بھی جائز نہیں
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ :
نهى رسول الله عن بيع حبل الحبلة
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاملہ کے حمل کی بیع سے منع فرمایا ہے ۔“
اور یہ بیع دور جاہلیت میں تھی۔
كان الرجل يبتاع الجزور إلى أن تنتج الناقة ثم تنتج التى فى بطنها
”آدمی اونٹی اس شرط پر خریدتا کہ اس کی قیمت اس وقت دے گا جب اونٹنی بچہ جنے گی ، پھر وہ بچہ جو اونٹنی کے پیٹ میں ہے وہ (آگے ایک بچہ ) جنے گا۔“
[مسلم: 1514 ، كتاب البيوع: باب تحريم بيع حبل الحبلة ، مؤطا: 653/2 ، بخاري: 2143 ، ترمذي: 1229 ، ابو داود: 3380 ، أحمد: 63/2 ، نسائي: 4624]
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
أن رسول الله نهى عن بيع الملاقيح والمضامين
”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ملاقیح اور مضامین کی خرید و فروخت سے منع فرمایا ہے ۔“
[صحيح: صحيح الجامع الصغير: 6937 ، كشف الأستار للبزار: 1267 ، نصب الراية: 10/4]
”مضامين“ لفظِ مضمونہ کی جمع ہے اس کا مطلب ”نر اونٹ وغیرہ کی پشت میں منی کے قطرات“ (جن سے بچے بنتے ہیں) ہے۔“
”ملاقيح“ لفظ ملقوحہ کی جمع ہے۔ اس سے مراد ”وہ بچے ہیں جو مادہ جانوروں کے پیٹوں میں ہیں۔“
[سبل اسلام: 1105/3 ، المسوي: 23/2]
حبل الحبله کی دو مشہور تفسیریں ہیں:
(مالکؒ ، شافعیؒ) مادہ جانور کے پیٹ میں پرورش پانے والا بچہ پیدائش کے بعد جوان ہو کر جو بچہ جنے گا اس کی بیع حرام ہے۔
(احمدؒ ، اسحاقؒ ، ترمذیؒ) اس قیمت پر جانور دینا کہ یہ جو بچہ جنے گا اس کا بچہ مجھے دینا ہو گا۔
(ابن حجرؒ ، نوویؒ) انہوں نے پہلے مذہب کو ترجیح دی ہے۔
◈ اس بیع سے ممانعت کا سبب یہ ہے کہ یہ معدوم و مجہول شے کی بیع ہے اور دھوکے کی بیع میں داخل ہے۔
[فتح الباري: 93/5 ، تحفة الأحوزى: 482/4 ، نيل الأوطار: 517/3 ، سبل السلام: 1061/3]
حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
نهي رسول الله من الملامسة والمنابذة فى البيع
”رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع میں ملامسہ اور منابذہ سے منع فرمایا ہے۔“
”ملامسه“ یہ ہے کہ ”خریدار کپڑا بیچنے والے کے کپڑے کو دن میں یا رات میں اپنے ہاتھ سے چھوئے اور اس کے علاوہ اسے الٹ کر بھی نہ دیکھے ، اور ”منابذه“ یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کی طرف اپنا (برائے فروخت) کپڑا پھینکتا ہے اور بلا غور و فکر اور بلا رضا مندی کے ان کے درمیان بیع پختہ ہو جاتی ہے ۔“
[بخارى: 2144 ، كتاب البيوع: باب بيع الملامسة ، مسلم: 512 ، ابو داود: 3377 ، نسائي: 260/7 ، ابن ماجة: 217 ، دارمي: 169/2 ، حميدي: 730 ، ابن الجارود: 592 ، عبد الرزاق: 14987 ، أبو يعلى: 976 ، بيهقي: 342/5]
(شوکانیؒ) بیع ملامسہ اور منابذہ سے روکنے کا سبب دھوکہ ، جہالت اور خیار مجلس کا ابطال ہے۔
[نيل الأوطار: 521/3]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے