نر چڑھانے اور ہر حرام چیز کی تجارت جائز نہیں
لفظِ عسب باب عَسَبَ يَعْسِبُ (ضرب) سے مصدر ہے۔ یہ ”نر کی جفتی یا اس سے خارج ہونے والے پانی ، یا اس کی نسل و اولاد ، یا جفتی کے عوض کرایہ دینے“ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
[القاموس المحيط: ص / 106 ، النهاية: 234/3]
اور فحل ”نر حیوان“ کو کہتے ہیں مثلاً گھوڑا ، اونٹ یا بکرا وغیرہ۔
[القاموس المحيط: ص / 938]
➊ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ :
أن النبى نهى عن ثمن عسب الفحل
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نر کی جفتی کے معاوضے کو ممنوع قرار دیا ہے۔“
[بخاري: 2284 ، كتاب الإجارة: باب عسب الفحل ، ابو داود: 3429 ، ترمذي: 1273 ، نسائي: 310/7 ، حاكم: 42/2 ، ابن الجارود: 582 ، بيهقى: 339/5 ، أحمد: 14/2]
➋ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
أن النبى صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع ضراب الجمل
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کی جفتی کی تجارت سے منع فرمایا ہے ۔“
[مسلم: 1565 ، نسائي: 310/7 ، أبو يعلى: 1816]
(جمہور ، شوکانیؒ ) نر کی جفتی کا معاوضہ لینا حرام ہے۔
(مالکؒ ، حسنؒ ، ابن سیرینؒ) نر کو جفتی کے لیے معلوم مدت تک اجرت پر دینا جائز ہے۔
[نيل الأوطار: 515/3]
➌ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نر کی جفتی کے معاوضے کے متعلق دریافت کیا :
فرخص له الكرامة
”تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ”کرامہ“ کی اجازت دے دی۔“
[ترمذي: 1274 ، نسائي: 310/7 ، بيهقي: 339/5]
كرامة ایسے عطیے (یا ہدیے ) کو کہتے ہیں جو بغیر کسی شرط کے نر کی جفتی کے عوض (قائدہ حاصل کرنے والا مالک کے لیے ) پیش کرتا ہے۔
[الروضة الندية: 195/2]
◈ بغیر معاوضے کے جفتی کی غرض سے نر جانور دینے کی ترغیب میں ایک حدیث مروی ہے کہ حضرت ابو کبشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من أطرق فرسا فأعقب كان له كأجر سبعين فرسا
”جس نے جفتی کے لیے عاریتاً گھوڑا دیا پھر کوئی اس کا جانشین بھی بنا (یعنی اس سے اولاد ہوئی ) تو اس کے لیے ستر گھوڑوں کے معاوضے کی مانند اجر ہے ۔
[أحمد: 23/4 ، ابن حبان: 4679 ، طبراني كبير: 853 ، امام ہيثميؒ نے اس كے رجال كو ثقه كها هے۔ مجمع الزوائد: 269/5]
➊ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ مردار کی چربی کے متعلق کیا حکم ہے؟ کیونکہ اس سے کشتیوں کو طلا کیا جاتا ہے ، چمڑوں کو چکنا کیا جاتا ہے اور لوگ اسے جلا کر روشنی حاصل کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا ، هو حرام
”نہیں ، وہ بھی حرام ہے۔ “
پھر اس کے ساتھ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قاتل الله اليهود إن الله لما حرم عليهم شحومها جملوه ثم باعوه فأكلوا ثمنه
”اللہ تعالی یہود کو غارت کرے کہ جب اللہ تعالیٰ نے چربیوں کو ان کے لیے حرام کر دیا تو انہوں نے اسے پگھلا کر فروخت کر دیا اور اس کی قیمت کھا گئے ۔“
[بخارى: 2236 ، كتاب البيوع: باب بيع الميتة والأصنام ، مسلم: 1581 ، أحمد: 324/3 ، ابو داود: 3486 ، ترمذي: 1297 ، نسائي: 309/7 ، ابن ماجة: 2167 ، أبو يعلى: 1873 ، ابن الجارود: 578 ، بيهقي: 12/6 ، شرح السنة: 218/4]
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ یہود پر لعنت کرے جب ان پر چربیوں کو حرام کیا گیا تو وہ انہیں بیچ کر ان کی قیمت کھا گئے۔
وأن الله إذا حرم على قوم أكل شيئ حرم عليهم ثمنه
”اور جب اللہ تعالی کسی قوم پر کوئی چیز کھانا حرام کر دیتے ہیں تو اس کی قیمت بھی حرام کر دیتے ہیں ۔“
[صحيح: صحيح ابو داود: 2978 ، كتاب البيوع: باب فى ثمن الخمر والميتة ، ابو داود: 3488 ، أحمد: 247/1]