جو کتے کو مارے کیا وہ اس کی قیمت ادا کرے گا یا نہیں
تحریر: عمران ایوب لاہوری

جو کتے کو مارے کیا وہ اس کی قیمت ادا کرے گا یا نہیں
(جمہور ) قیمت کی ادائیگی واجب نہیں (کیونکہ اس کی تجارت حرام ہے ) ۔
(ابو حنیفہؒ) قیمت ادا کرنا واجب ہے (کیونکہ اس کی تجارت جائز ہے )۔
(مالکؒ) اس کی تجارت تو جائز نہیں لیکن اس کی قیمت ادا کرنا واجب ہے۔
[الأم: 16/3 ، بدائع الصنائع: 3006/6 ، الحجة على أهل المدينة: 754/2 ، الكافي لا بن عبدالبر: ص / 327 ، الخرشي: 16/5 ، المغنى: 352/6 ، كشاف القناع: 154/3]
(راجح) اگر ایسے کتے کو مارا گیا ہے جس کی خرید و فروخت جائز ہے (مثلاً شکاری کتا وغیرہ) تو اس کی قیمت ادا کی جائے گی جبکہ اس کے علاوہ دوسرے کتوں کی قیمت ادا کرنا ضروری نہیں ۔
◈ بلی کی تجارت میں بھی اختلاف ہے:
(ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ، طاوسؒ ، مجاہدؒ ) بلی کی تجارت حرام ہے۔
(جمہور ) بلی کی بیع جائز ہے کیونکہ ممانعت والی حدیث ضعیف ہے۔
(امیر صنعانیؒ ) حدیث کو ضعیف کہنے والوں کی بات مردود ہے۔
(عبد الرحمن مبارکپوریؒ) حدیث کی صحت میں کوئی شک نہیں ۔
[ابن أبى شيبة: 402/4 ، سبل السلام: 1052/3 ، تحفة الأحوذي: 568/4]
(راجح) بلی کی تجارت حرام ہے کیونکہ گذشتہ صحیح حدیث اس کی دلیل ہے۔
[نيل الأوطار: 513/3]
➊ حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
أن رسول الله حرم ثمن الدم
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خون کی قیمت حرام قرار دی ہے ۔“
[بخاري: 2086 ، كتاب البيوع: باب موكل الربا ، أحمد: 308/4 ، ابو داود: 3483 ، بيهقي: 6/6]
➋ خون کی بیع بالا جماع حرام ہے۔
[فتح البارى: 180/5]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے