سوال:
کیا جن سلیمان علیہ السلام کی خدمت کیا کرتے تھے ؟
جواب :
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ ۖ وَأَسَلْنَا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ ۖ وَمِنَ الْجِنِّ مَن يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَمَن يَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيرِ ﴿١٢﴾
”اور سلیمان کے لیے ہوا کو ( تابع کر دیا)، اس کا صبح کا چلنا ایک ماہ کا اور شام کا چلنا ایک ماہ کا تھا اور ہم نے اس کے لیے تانبے کا چشمہ بہایا اور جنوں میں سے کچھ وہ تھے، جو اس کے سامنے اس کے رب کے اذن سے کام کرتے تھے اور ان میں سے جو ہمارے حکم سے کجی کرتا، ہم اسے بھڑکتی آگ کا کچھ عذاب چکھاتے تھے۔“ [سبأ: 12]
اور اللہ کا فرمان ہے :
فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ ۖ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ ﴿١٤﴾
”پھر جب ہم نے اس پر موت کا فیصلہ کیا تو انھیں اس کی موت کا پتا نہیں دیا مگر زمین کے کیڑے (دیمک) نے جو اس کی لاٹھی کھاتا رہا، پھر جب وہ گرا تو جنوں کی حقیقت کھل گئی کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو اس ذلیل کرنے والے عذاب میں نہ رہتے۔“ [سبأ: 14]
جب اللہ نے داود علیہ السلام پر اپنے انعام کا ذکر کیا تو ان کے بیٹے سلیمان علیہ السلام کو عطا کردہ اپنے انعامات کا ساتھ ہی ذکر کیا۔ لینی ہوا کو مسخر کرنے اور اس (ہوا کا) ان کے تخت کو اٹھانے کا اور اس کے ایک مہینے کی رفتار سے آنے جانے کا ذکر کیا۔
امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا :
وہ اپنے تخت پر دمشق سے نکلتے اور اصطخر نامی جگہ پر اترتے تھے۔ وہاں صبح کا کھانا کھاتے اور ہوا ہی میں اصطخر سے جاتے اور رات کابل میں گزارتے، دشق اور اصطخر کے درمیان تیز رفتار سوار کے لیے ایک مہینے کا فاصلہ ہے، اسی طرح سے اصطخر اور کابل کے در میان بھی ایک مہینے کا فاصلہ ہے۔
فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنسَأَتَهُ ۖ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَن لَّوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ ﴿١٤﴾ [سبا : 14 ]
اس آیت میں اللہ تعالیٰ ذکر کرتے ہیں کہ کیسے سلیمان علیہ السلام فوت ہوئے اور کیسے اللہ نے ان جانوں پر ان کی موت کو مخفی رکھا جو مشقت والے کاموں میں ان کے لیے مسخر و تابع کیے گئے تھے، کیوں کہ وہ ابن عباس، مجاہد، حسن اور قتادہ وغیرہ رحمهم اللہ کے قول کے مطابق تقریباً ایک سال کی طویل مدت تک اپنی لاٹھی پر ٹیک لگائے (حالت موت میں بھی) قائم رہے۔ پھر جب اسے زمین کے کیڑے یعنی دیمک نے کھایا تو وہ کمزور ہوئی اور زمین کی طرف گرگئی۔ جن و انس پر یہ بات بھی عیاں ہو گئی کہ جناب بھی غیب نہیں جانتے، جب کہ وہ اس کا دعوی کرتے اور لوگوں کو وہم دلاتے ہیں۔ [ تفسير القرآن العظيم لابن كثير، سورة سبأ آيت: 14 ]