سوال:
بنو اسرائیل نے اپنے موسیٰ علیہ السلام سے کیا سلوک کیا ؟
جواب :
«وَقَالُوا يَا أَيُّهَ السَّاحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ بِمَا عَهِدَ عِندَكَ إِنَّنَا لَمُهْتَدُونَ » [الزخرف: 49]
اور انھوں نے کہا اے جادوگر! ہمارے لیے اپنے رب سے اس کے ذریعے دعا کر جو اس نے تجھ سے عہد کر رکھا ہے، بے شک ہم ضرور ہی سیدھی راہ پر آنے والے ہیں۔
امام ابن جریر ج رحمہ اللہ نے کہا :
”یہاں «السَّاحِرُ » سے مراد «العالم » ہے اور ان کے زمانے کے علما جادوگر ہی ہوا کرتے تھے۔ یہ کام ان کے زمانے میں قابل مذمت نہ تھا اور نہ ہی ان کی طرف سے کسی نقصان کا سودا تھا۔ اصل بات یہ تھی کہ وہ اسے ضروری سمجھتے تھے، لیکن اس میں کوئی تناسب معلوم نہیں ہوتا، بلکہ یہ ان کے گمان میں تعظیم تھی۔ ہر بار وہ موسیٰ علیہ السلام سے ایمان کا وعدہ کرتے تھے اور اس بات کا وعدہ کہ وہ بنو اسرائیل کو اس کے ساتھ بھیج دیں گے اور ہر بار ہی وہ اپنے عہد کو توڑ دیتے تھے۔“