والدین کے حکم پر طلاق دینا
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ میری ایک بیوی تھی۔ میں اس سے (بے حد ) محبت کرتا تھا (لیکن) میرے والد اسے ناپسند کرتے تھے لٰہذا میرے والد نے مجھے حکم دیا کہ میں اسے طلاق دے دوں۔ میں نے انکار کر دیا۔ پھر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يا عبدالله بن عمر طلق امرأتك
”اے عبد اللہ بن عمر! اپنی عورت کو طلاق دے دو۔“
[حسن: صحيح ترمذي: 950 ، كتاب الطلاق واللعان: باب ما جاء فى الرجل يسئاله أبوه أن يطلق زوجتہ ، ترمذي: 1189 ، ابن ماجة: 2088 ، ابو داود: 5138 ، أحمد: 20/2 ، ابن حبان: 426 ، امام حاكمؒ اور امام ذهبيؒ نے بهي اسے صحيح كها هے۔]
(عبدالرحمن مبارکپوریؒ) اس حدیث میں واضح دلیل موجود ہے کہ اگر والد حکم دے تو آدمی پر اپنی بیوی کو طلاق دینا واجب ہے خواہ وہ اس سے (کتنی ہی ) محبت کرتا ہو ۔ ماں کا بھی یہی حکم ہے کیونکہ اس کا درجہ والد سے بھی زیادہ ہے۔
[تحفة الأحوذى: 412/4]
(شوکانیؒ ) اسی کے قائل ہیں۔
[نيل الأوطار: 313/4]
(راجح) والدین دو صورتوں میں ہی طلاق کا حکم دیں گے۔
➊ یا تو والد کوئی شرعی سبب بیان کرے گا کہ تمہاری بیوی اخلاقی حوالے سے درست نہیں ، غیر مردوں سے میل جول رکھتی ہے یا غلط قسم کی سوسائٹی میں اٹھتی بیٹھتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ تو ایسی صورت میں بیٹے پر لازم ہے کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے۔
➋ یا بغیر کسی شرعی سبب کے محض بیٹے کی اپنی بیوی سے بے پناہ محبت دیکھ کر طلاق کا حکم دے گا کہ یہ بیوی سے اتنی محبت کیوں کرتا ہے ہم سے اتنی محبت کیوں نہیں کرتا وغیرہ ۔ تو ایسی صورت میں طلاق دینا ضروری نہیں۔ بالخصوص جب اس کی بیوی دینی و اخلاقی اعتبار سے بھی درست ہو۔
(شیخ عثیمینؒ) انہوں نے اسی کے مطابق فتوی دیا ہے۔
[فتاوى المرأة المسلمة: 756/2]
(احمدؒ) ایک آدمی نے ان سے آ کر کہا کہ میرے والد نے مجھے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔ امام احمدؒ نے کہا کہ تم اسے طلاق مت دو ۔ اس آدمی نے کہا کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو حکم نہیں دیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے جب عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں اس کا حکم دیا تھا؟ تو امام احمدؒ نے کہا:
هل أبوك مثل عمر؟
”کیا تمہارا باپ عمر رضی اللہ عنہ کی طرح ہے؟ ۔“
[أيضا]
لٰہذا اس حدیث کے متعلق یہی کہنا مناسب ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کسی خاص مصلحت و حکمت کے تحت اپنے بیٹے کو طلاق کا حکم دیا ہو گا۔ علاوہ ازیں مسند احمد کی ایک روایت سے بھی یہ اشارہ ملتا ہے جیسا کہ اس میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ”عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایسی عورت سے نکاح کر رکھا ہے:
قد كرهتها له
”جسے میں اس کے لیے نا پسند کرتا ہوں ۔“
[أحمد: 42/2]
اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے احمد عبد الرحمٰن البناء فرماتے ہیں کہ ”ظاہر ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس عورت کو اس لیے نا پسند کیا کیونکہ ان کے خیال میں وہ ان کے بیٹے کے لیے موزوں نہیں تھی اور اس معاملے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ضرور کسی مصلحت کو ملحوظ رکھا ہو گا بالخصوص اس لیے کہ آپ الہام الہی کے حامل تھے۔ “
[الفتح الرباني: 4/17]
نیز ابراہیم علیہ السلام نے جو اسماعیل علیہ السلام کو اپنے دروازے کی چوکھٹ بدلنے (یعنی اپنی بیوی کو طلاق دینے ) کا حکم دیا تھا اس کا بھی ایک خاص سبب تھا۔ وہ یہ کہ وہ عورت شکر گزار نہ تھی ۔
[بخاري: 3364 ، كتاب أحاديث الأنبيا: باب]