تمہیدی کلمات
یہ بحث ان شبہات کے بارے میں ہے جو بعض حضرات تقلید کے اثبات کے لیے پیش کرتے ہیں۔ ہم پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ:
– قرآن و حدیث میں تقلیدِ شخصی کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
– صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی بھی تقلید کے رد اور ابطال کی کھلی شہادت دیتی ہے۔
تقلید کے حق میں پیش کیے جانے والے دلائل درحقیقت ایسی کوششیں ہیں جیسے دو پہاڑوں کی چوٹیوں کو آپس میں ملانے کی ناممکن سعی۔ دعویٰ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کا کرتے ہیں، مگر استدلال میں کبھی کسی صحابی کی اتباع، کبھی زندہ عالم سے فتویٰ لینے اور کبھی خلفائے راشدین کی پیروی کو "تقلید” کا نام دے دیتے ہیں۔ آگے آنے والے صفحات میں ان سارے شبہات کا جائزہ لیا جائے گا۔
ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ ہر بدعتی اپنی بدعت کے جواز کے لیے جو دلیل پیش کرتا ہے، اکثر وہی دلیل اس کے خلاف بھی جاتی ہے۔ یہی صورتِ حال تقلید کے حق میں دیے جانے والے ان شبہات کی ہے جن کا ذکر آگے آرہا ہے۔
مقلدین کے شبہات اور ان کے جوابات
ذیل میں مقلدین کے چند مشہور شبہات کو نمبر وار پیش کیا گیا ہے۔ ہر شبہے کے بعد اس کا مختصر جواب درج ہے۔
-
پہلا شبہہ
آیتِ کریمہ:
"وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ” (السجدہ:24)
مقلدین کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں بھی پیشوا تھے جو اپنی قوم کی رہنمائی کرتے تھے۔ آج ہم بھی اپنے امام کی پیروی کرتے ہیں، اس لیے تقلید ثابت ہوئی۔
جواب کے اہم نکات:
• یہ آیت بنی اسرائیل کے مخصوص حالات کو بیان کرتی ہے، اس سے چاروں فقہی مذاہب میں سے کسی کی تقلید ثابت نہیں ہوتی۔
• اللہ تعالیٰ کا فرمان "يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا” بتاتا ہے کہ وہ لوگ اللہ کے حکم (وحی) کے مطابق ہدایت دیتے تھے، نہ کہ اپنی رائے پر یا بلا دلیل کسی کی تقلید کراتے تھے۔
• اسی بنی اسرائیل کا ایک عمل یہ بھی تھا کہ انہوں نے اپنے علما اور درویشوں کو "ارباباً من دون اللہ” بنا لیا، جسے قرآن مجید نے مذمت کے ساتھ ذکر کیا (التوبہ:31)۔ مقلدین کا اس آیت سے استدلال انہیں اسی گمراہی سے قریب تر کرتا ہے جس میں بنی اسرائیل مبتلا ہوئے۔
-
دوسرا شبہہ
آیتِ کریمہ:
"وَمَا يَعْقِلُهَا إِلَّا الْعَالِمُونَ” (العنکبوت:43)
مقلدین کہتے ہیں کہ قرآن کو علما ہی سمجھتے ہیں، اور عوام انہی سے پوچھتے ہیں۔ یہ عمل تقلید ہے۔
جواب کے اہم نکات:
• یہاں اللہ تعالیٰ نے "علما” کا لفظ جمع کے صیغے میں استعمال کیا ہے، حالانکہ مقلدین ایک ہی امام کے ساتھ جُڑنے پر زور دیتے ہیں۔
• علما جب قرآن کا معنی و مفہوم بیان کرتے ہیں تو وہ اپنی رائے نہیں بلکہ کتاب و سنت کے دلائل ہی بیان کرتے ہیں۔ اسے "اتباعِ دلیل” کہتے ہیں، "تقلیدِ شخصی” نہیں۔
• امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی اپنی کوئی ایسی تفسیر یا حدیث کی شرح موجود نہیں جو ہمیں ان کی براہِ راست قرآن فہمی اور حدیث فہمی تک پہنچاتی ہو۔ مقلدین اپنی فقہی کتابوں کو امام صاحب کی تشریح قرار دے کر تقلید ثابت کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ یہ کتابیں عموماً بعد کے علما نے لکھی ہیں، اور اکثر ان میں امام صاحب کے براہِ راست اقوال بھی ثابت نہیں۔
-
تیسرا شبہہ
حدیثِ نبوی:
"اقتدوا باللذين من بعدي أبي بكر وعمر” (ترمذی، مستدرک، مشکوٰۃ)
مقلدین کا کہنا ہے کہ اس حدیث سے "تقلیدِ شخصی” ثابت ہوتی ہے۔
جواب کے اہم نکات:
• اس حدیث میں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی پیروی کا حکم عمومی طور پر دیا گیا ہے، مگر اس کا مطلب ان کی اندھی تقلید نہیں۔ اگر صحابہ کرام کا یہ طرزِ عمل ہوتا تو وہ کبھی ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے اختلاف نہ کرتے، حالانکہ کئی مسائل میں صحابہ نے خلفائے راشدین سے علمی اختلاف کیا اور دلیل کی بنیاد پر اپنی رائے کو ترجیح دی۔
• اگر اس حدیث سے تقلیدِ شخصی ثابت ہوتی تو لوگوں کو صدیقی یا عمری کہلانا پڑتا، مگر ایسا کبھی نہیں ہوا۔
• مقلدین بھی عملاً ابوبکر یا عمر رضی اللہ عنہما کی تقلید نہیں کرتے۔ اگر کرتے تو کئی مسائل میں ان دونوں خلفائے راشدین کے اقوال کو چھوڑ کر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول نہ اپناتے۔
• اس حدیث پر عمل کا مطلب یہ ہے کہ جب خلفائے راشدین قرآن و سنت کے موافق کوئی حکم دیں تو اس کی اتباع کی جائے، اور یہ تقلید نہیں بلکہ اتباعِ حق ہے۔
-
چوتھا شبہہ
حدیثِ نبوی:
"رَضِيتُ لَكُم مَا رَضِيَ ابنُ اُمِّ عَبدٍ” (مستدرک: ج3ص319)
مقلدین کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ جس چیز کو پسند کریں، میں بھی وہی پسند کرتا ہوں۔ چونکہ فقہِ حنفی کی بنیاد ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے اقوال پر ہے، لہٰذا فقہِ حنفی پر اللہ اور رسول دونوں راضی ہوئے۔
جواب کے اہم نکات:
• ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ انہوں نے واضح طور پر تقلید سے منع کیا (لا يقلدن احدكم دينه رجلا)۔ یہ بات خود ان کی تقلید کے خلاف ہے۔
• فقہِ حنفی میں ایسے متعدد مسائل پائے جاتے ہیں جن میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول چھوڑ کر کوئی دوسرا قول اختیار کیا گیا ہے۔
• ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف جو بھی منسوب کر کے تقلید کو ثابت کرنا چاہیں تو پھر دیکھنا ہوگا کہ کیا تمام صحابہ کرام نے ان کی تقلید کی؟ اگر نہیں کی تو یہ حدیث اس مفہوم میں کہاں گئی؟
• مستدرک کی حدیث کا پورا سیاق یہ بتاتا ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ قرآن و سنت کے موافق چیزوں پر راضی ہوتے تھے۔ کسی مخصوص فقہی مسلک پر راضی ہونے کا کوئی اشارہ نہیں ملتا۔
-
پانچوں شبہہ
بعض مقلدین کہتے ہیں کہ:
• ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے موجود ہونے پر مسئلہ نہ پوچھنے کا کہا۔
• نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا۔
• نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف علاقوں میں امراء مقرر کیے۔
• ابن عباس رضی اللہ عنہما علی رضی اللہ عنہ کا فتویٰ سن کر مطمئن ہوتے تھے۔
• ایک عورت کو جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ آنے کا کہا تو اس نے پوچھا کہ اگر آپ نہ ہوں تو؟ آپ نے فرمایا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جانا۔
ان تمام واقعات سے مقلدین "تقلیدِ شخصی” ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جواب کے اہم نکات:
• صحابہ کرام کسی ایک امام یا صحابی کی رائے کو بلا دلیل مستقل پکڑ کر نہیں بیٹھے تھے۔ اگر ابوبکر یا عمر یا علی رضی اللہ عنہم سے اختلاف ہوا تو دلیل کی بنیاد پر کیا۔
• اگر کوئی صحابی یا عالم فتویٰ دیتا تو وہ اپنی رائے کی بجائے قرآن و حدیث کی وضاحت کی کوشش کرتا۔ اسے تقلید نہیں کہتے، بلکہ "استفتاء” (فتویٰ طلب کرنا) کہتے ہیں۔
• صحابہ کرام دلائل کی موافقت پر ایک دوسرے کی بات مان لیتے اور اختلاف کی صورت میں قرآن و سنت کی طرف رجوع کرتے تھے۔ یہی طرزِ عمل آج بھی مطلوب ہے۔
-
چھٹا شبہہ
مقلدین کا اعتراض:
"تم لوگ بھی تو علما کی کتابوں کے حوالے پیش کرتے ہو، ان کی جرح و تعدیل مانتے ہو، مفسرین کی تفاسیر پڑھتے ہو۔ تو پھر یہ بھی تو تقلید ہوئی۔”
جواب کے اہم نکات:
• علما کے اقوال یا جرح و تعدیل کو ماننا اس وقت تقلید نہیں کہلاتا جب اس کی بنیاد دلیل یا مشاہدہ پر ہو۔ جرح و تعدیل دراصل راوی کے حالات پر مبنی ایک علمی بیان ہے، نہ کہ اندھی تقلید۔
• اسی طرح کسی عالم سے مسئلہ پوچھنا "استفتاء” کہلاتا ہے۔ یہ تب ہوتا ہے جب وہ عالم قرآن و حدیث کی دلیل پیش کر کے مسئلہ بتائے، نہ کہ یہ کہ اس کی ذاتی رائے کو دلیل کے بغیر ہی مان لیا جائے۔
• زندہ عالم سے براہ راست سوال کیا جا سکتا ہے۔ وفات یافتہ امام کی تقلید میں یہ ممکن نہیں ہوتا کہ اس سے دوبدو پوچھا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کے فقہا کی کتابوں کو بھی پیش کیا جاتا ہے، مگر اصل معیار کتاب و سنت ہی ہوتے ہیں۔
• مفسرین کی تفسیریں اس لیے پڑھی جاتی ہیں کہ وہ کسی آیت کے لغوی پہلو یا قرائن واضح کرتے ہیں۔ ان کی ہر رائے بلا دلیل نہیں مان لی جاتی۔ اگر کسی مقام پر قرآن و حدیث کے خلاف کوئی چیز نظر آئے تو اسے رد کیا جاتا ہے۔
-
ساتواں شبہہ
"کسی امام کی بات کو بغیر دلیل کے اس لیے مانا جائے کہ وہ امام قرآن و سنت کی بصیرت رکھتا ہے۔ تو ایسی تقلید میں کیا قباحت ہے؟”
جواب کے اہم نکات:
• پہلا سوال یہ ہے کہ اس امام سے دلیل کیوں نہ طلب کی جائے؟ وہ نبی تو نہیں کہ بلاچوں و چراں ماننا لازم ہو۔ قرآن متعدد مقامات پر تقلیدی رویے کی مذمت کرتا ہے۔
• دوسرا سوال یہ کہ مقلد کو کیسے معلوم ہوا کہ اس کا امام سب سے زیادہ عالم ہے؟ اس کے لیے تو مقلد کو خود کتاب و سنت کا ماہر ہونا چاہیے، اور پھر تقلید کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
• تیسرا سوال یہ کہ اگر امام سے غلطی کا امکان ہے تو اس غلطی کی پہچان کا معیار کیا ہوگا؟ ظاہر ہے کہ وہی قرآن و حدیث۔ جب بھی امام کا قول قرآن و سنت کے خلاف پایا جائے گا تو اسے چھوڑ دینا ہوگا۔ اسے "اتباعِ دلیل” کہا جاتا ہے، "تقلیدِ امام” نہیں۔
• کسی امام کے تقویٰ یا زہد و ورع کی گواہی الگ بات ہے، مگر اس سے اس کے ہر حکم کی معصومیت ثابت نہیں ہوتی۔
-
آٹھواں شبہہ
بعض مقلدین ایسی مثالیں دیتے ہیں کہ دنیاوی نظام (مثلاً لشکر میں سپاہیوں کی اطاعت، گھر میں بیوی کی فرمانبرداری وغیرہ) بھی اندھی اطاعت پر چلتا ہے۔ اسی کو وہ "تقلید” سے تشبیہ دیتے ہیں۔
جواب کے اہم نکات:
• امیر کی اطاعت اور شوہر کا حکم، معروفات میں واجب ہے، لیکن دینی معاملات میں ہدایات دینے کے لیے قرآن و سنت کے دلائل کا اعتبار ہوگا۔
• نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انما الطاعة في المعروف” یعنی امیر کی اطاعت اچھے کاموں میں ہے، نہ کہ معصیت میں۔
• شوہر کے جائز حکم کی تعمیل بیوی پر فرض ہے، مگر یہ دینی مسئلہ نہیں کہ اسے بلا دلیل مانا جائے۔ اگر شوہر یا کوئی اور شخص شریعت کے خلاف حکم دے تو اس کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔
• اس قسم کی تشبیہات دراصل مقلدین کی نزاکتِ استدلال پر سوال اٹھاتی ہیں؛ کیونکہ اطاعتِ امیر کی مثال دے کر تقلیدِ مجتہد کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
-
نواں شبہہ:
ترکِ تقلید کے نقصانات
بعض مقلدین کہتے ہیں کہ تقلید چھوڑنے سے فروعی مسائل میں انتشار، تجدد اور فتنے پیدا ہوتے ہیں، اور اجماع کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ اس پر مختصر جوابات:
- دین میں کوئی "غیر ضروری” مسئلہ نہیں۔ ہر مسئلے کی اپنی اہمیت ہے۔
- حق پر مبنی مسائل بیان کرنا فتنہ نہیں، بلکہ حق کو چھپانا فتنہ کا باعث بنتا ہے۔
- بدعات اور خرافات اکثر انہی کی کتب میں زیادہ پائی جاتی ہیں جو تقلید پر اصرار کرتے ہیں۔
- تجدد اور اباحت پسندی وہاں سے آتی ہے جہاں دین کی بجائے امام کی رائے کو ترجیح دی جائے، اور کتاب و سنت کے مقابلے میں قیاس آرائیوں کو آگے رکھا جائے۔
- اجماع کی خلاف ورزی کا الزام بھی مقلدین خود پر لیں، کیونکہ امام شافعی رحمہ اللہ کے بقول مسلمانوں کا اجماع ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث آجانے پر کسی کی رائے کو اس پر مقدم نہیں کیا جا سکتا۔ مگر مقلدین عملاً اس کے برعکس کرتے ہیں۔
-
دسواں شبہہ
بعض مقلدین اعتراض کرتے ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی اور بانی منکرینِ حدیث بھی غیر مقلد تھے، تو معلوم ہوا کہ ترکِ تقلید گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔
جواب کے اہم نکات:
• صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی غیر مقلد تھے۔ کیا یہ اعتراض ان پر بھی لاگو ہوتا ہے؟
• مرزا غلام احمد قادیانی خود کو حنفی کہتا تھا۔ وہ کبھی اہل حدیث ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا تھا، بلکہ اس کے اپنے بیٹے نے اس کی تائید کی ہے۔
• موحدین (اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کرنے والے) اور دہریوں (کسی کی بھی عبادت نہ کرنے والے) دونوں غیر اللہ کی عبادت نہیں کرتے، مگر موحدین حق پر ہیں اور دہریے گمراہ۔ محض ایک لفظ "غیر مقلد” استعمال کرنے سے سب ایک ہی طرح نہیں ہو جاتے۔
-
گیارھواں شبہہ
اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپ حضرات بعض علما (مثلاً ابن حزم، شوکانی، صدیق حسن خان، ثنا اللہ امرتسری، وحید الزماں وغیرہ) کی کتابوں سے دلائل لیتے ہیں، جب یہ حضرات بھی بعض مسائل میں غلطی کر گئے تو کیا آپ ان کے مقلد ہیں؟
جواب کے اہم نکات:
• ہمارا اصول ہے کہ ہر مومن و عالم کی بات کو کتاب و سنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔ جو چیز قرآن و حدیث کے مطابق ہو، ہم اسے قبول کرتے ہیں اور جو مخالف ہو، اسے چھوڑ دیتے ہیں۔
• یہ تقلید نہیں بلکہ "اتباعِ دلیل” ہے۔ جب کسی عالم سے غلطی ہو جاتی ہے تو ہم اس کے احترام کے ساتھ اس کی رائے چھوڑ دیتے ہیں۔
• مقلدین، اس کے برعکس بعض فقہا کی کتابوں میں من گھڑت اور ضعیف روایات تک کو بھی اپنا دفاع کرنے کے لیے دلیل بنا لیتے ہیں، پھر بھی عمل بالحدیث کا دعویٰ کرتے ہیں۔
-
بارھواں شبہہ:
کیا قرآن و حدیث میں سب مسائل نہیں؟
اکثر مقلدین سوال کرتے ہیں کہ اگر ہر مسئلے کا حل کتاب و سنت میں ہے تو بتاؤ نماز میں "سبحانک اللّٰھم” کی جگہ "التحیات” پڑھ لے تو کیا نماز باطل ہوگی یا سجدہ سہو؟ بسم اللہ کو امام آہستہ پڑھے اور مقتدی تلاوت سے پہلے بلند آواز سے پڑھے تو کیا حکم ہے؟ وغیرہ۔
جواب کے اہم نکات:
• قرآن و حدیث میں تمام اصول موجود ہیں، اور ایک مسلمان انہی اصولوں کی روشنی میں ہر نئے مسئلے کا حل نکال سکتا ہے۔ یہ "اجتہاد” ہے، جسے قیامت تک جاری رہنا ہے۔
• نماز میں "سبحانک اللّٰھم” ثبوت کے ساتھ مشروع ہے، اگر کوئی اس کی جگہ "التحیات” پڑھ دے تو دو سجدہ سہو کرے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر کمی زیادتی پر سجدہ سہو کا حکم دیا ہے۔
• بسم اللہ کو امام آہستہ پڑھ سکتا ہے، مقتدی تلاوت سے پہلے بلند آواز سے بھی پڑھ سکتا ہے، اس کی تفصیلات مختلف احادیث میں مل جاتی ہیں۔
• رفع الیدین کا ترک کرنے والا اگر عمداً سنت کو نفرت سے چھوڑتا ہے تو مجرم ہے، ورنہ جہالت یا دوسری وجہ سے ترک کرنے سے نماز باطل نہیں ہوتی۔
-
تیرھواں شبہہ
بعض احناف دعویٰ کرتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تابعی تھے، اور "حدیثِ ثنائی” (دو واسطوں سے مرفوع) پر ان کی فقہ مبنی ہے، لہٰذا فقہِ حنفی سب سے بہتر اور معتبر ہے۔
جواب کے اہم نکات:
• امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تابعی ہونے کے باوجود بہت کم صحابہ سے روایت کرتے ہیں۔ اصطلاحاتِ محدثین کے مطابق وہ حدیث کی روایت میں قوی شمار نہیں ہوتے۔
• جن کتابوں کو "مسند الامام الاعظم” وغیرہ کہا جاتا ہے، ان میں صحیح و متصل "ثنائی” حدیثوں کا وجود نہیں ملتا۔
• مشہور محدثین نے امام صاحب کی حدیث دانی پر تحفظات کا اظہار کیا ہے، اگرچہ ان کی فقاہت، صداقت اور تقویٰ پر کسی کو اعتراض نہیں۔
• فقہ حنفی میں اگرچہ بہت سے مسائل صحیح احادیث کے مطابق ہیں، لیکن اسی فقہ میں ایسی بھی متعدد آراء ملتی ہیں جو صحیح دلائل کے خلاف ہیں۔
-
چودھواں شبہہ
مقلدین کہتے ہیں کہ اگر حنفی فقہ میں کوئی مسئلہ مخالفِ کتاب و سنت ہے تو دکھایا جائے۔ ہم تو مانتے ہیں کہ فقہِ حنفی قرآن و حدیث کے عین مطابق ہے۔
جواب کے اہم نکات:
• ہماری ویب سائٹ پر ایسے متعدد مسائل موجود ہیں جہاں فقہِ حنفی اور صحیح احادیث میں صریح ٹکراؤ ہے۔ مقلدین اب تک ان کے کوئی قابلِ اطمینان جواب نہیں دے سکے۔
• بعض بنیادی مسائل میں حنفی مذہب کی آراء اور اجتہادات قرآن و حدیث کے ظاہری معنوں سے مطابقت نہیں رکھتے، مثلاً ایمان کی کمی بیشی کے مسئلے میں، وضو کی نیت کے مسئلے میں، وغیرہ۔
• اگر کہیں قرآن و سنت کے مطابق کوئی مسئلہ موجود ہے تو اسے خوشی سے قبول کیا جائے گا، کیونکہ اصل معیار دلیل ہے نہ کہ کسی امام کا قول۔
-
پندرھواں شبہہ
بعض احناف کہتے ہیں کہ ہم صرف امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہی کو کیوں نشانہ بناتے ہیں؟ جب کہ آپ حضرات شوافع، مالکیہ، حنابلہ کا رد کم کرتے ہیں۔
جواب کے اہم نکات:
• برصغیر میں حنفیت عام ہے، اسی لیے اس پر زیادہ گفتگو ہوتی ہے۔
• حنفی فقہ، دوسرے مذاہب کے مقابلے میں احادیث سے نسبتاً دُور معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے یہاں توجہ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، تاکہ لوگ کتاب و سنت کی حقیقت سے آگاہ ہو سکیں۔
• دیگر مذاہب کے مسائل میں بھی جہاں کتاب و سنت کی مخالفت ہو گی، وہاں رد ضرور کیا جائے گا۔ کسی فرد واحد کو ہدف بنانا مقصود نہیں، مقصد کتاب و سنت کی بالادستی واضح کرنا ہے۔
خلاصۂ کلام
• تقلید کو قرآن و حدیث سے ثابت کرنے کی کوششیں کبھی کامیاب نہیں ہو سکیں۔ جس قدر دلیلیں دی جاتی ہیں، ان میں اکثر آیات یا احادیث کا سیاق و سباق بالکل الٹ مفہوم پیش کرتا ہے۔
• صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین میں تقلید کا نام و نشان نہیں ملتا۔ وہ قرآن و حدیث کی خلاف ورزی پر کسی بڑے صحابی کی بات بھی نہیں مانتے تھے، کجا یہ کہ بعد کے کسی امام یا عالم کی ہر بات بلا دلیل مان لیں۔
• اجتہاد کی گنجائش قیامت تک باقی ہے، مگر تقلید اس کے برخلاف جمود اور تعصب کا نام ہے۔ امت کو اس سے بچنے کی ضرورت ہے۔
• دین کی حفاظت صرف اور صرف قرآن و سنت کے ساتھ مربوط رہنے میں ہے۔ علما کے اقوال احترام کے ساتھ سنے جائیں، مگر جب بھی وہ کتاب و سنت سے ٹکرائیں تو اسے ترک کر دیا جائے۔ یہی صحابہ کا طریقہ تھا۔
• ہماری ساری گفتگو تعصب یا ذاتی عناد کی وجہ سے نہیں بلکہ اخلاص کی بنیاد پر ہے کہ مسلمان قرآن و حدیث کی اصل راہ پر آئیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو راہِ مستقیم پر چلنے اور اپنی عاقبت سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
اختتامی دعا
اللھم اجعلنا من الفائزین برحمتک، ووفقنا للالتزام بکتابک وسنة رسولک، واجعلنا ممن یستمعون القول فیتبعون احسنہ۔ آمین۔