تقلید کی دو اقسام: تقلیدِ مذموم اور تقلیدِ ممدوح
مرتب کردہ: توحید ڈاٹ کام

پہلی بحث: تقلید کی اقسام

 

تقلید کی دو بنیادی اقسام ہیں:

  1. تقلیدِ مذموم (ناجائز / غیر مناسب تقلید)
  2. تقلیدِ ممدوح (ظاہراً جائز قرار دی جانے والی تقلید)

ذیل میں ان دونوں کی وضاحت پیش کی جا رہی ہے۔

 

  1. تقلیدِ مذموم

تقلیدِ مذموم سے مراد وہ تقلید ہے جس میں انسان کسی عالم یا اپنے بڑوں کے طریقوں کو قرآن و حدیث پر فوقیت دے دے۔ اس کی چند شکلیں درج ذیل ہیں:

• قرآن و حدیث کی مخالفت میں کسی عالم کی بات مانی جائے، یا محض باپ دادا کے رسم و رواج پر عمل کرتے ہوئے قرآن و سنت کو نظر انداز کیا جائے۔
– مثال کے طور پر کوئی قرآن کو صرف تبرک کے لیے پڑھے لیکن عملی زندگی میں اس سے راہنمائی لینے سے انکار کر دے۔
– اگر کوئی شخص اسے قرآن و حدیث کا حوالہ دے، تو جواب دے کہ "کیا ہمارے بڑے یہ بات نہیں جانتے تھے؟ کیا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ سے بے خبر تھے؟”

• کسی نامعلوم شخص کو اپنا پیشوا بنا لیا جائے، حالانکہ معلوم نہیں کہ وہ شخص عالم ہے بھی یا نہیں، اور آیا وہ فتویٰ دینے کا اہل بھی ہے یا نہیں۔

• صحیح اور واضح حدیث سامنے آ جانے کے باوجود یہ کہا جائے کہ "یہ تو ہمارے مذہب کے خلاف ہے، لہٰذا اسے چھوڑ دو یا اس کی ایسی تاویل کر دو کہ اصل مفہوم ہی بدل جائے۔”
– مثلاً یہ کہہ کر اس حدیث کو رد کر دینا کہ "یہ تو ہمارے مذہب کے خلاف اور امام شافعی رحمہ اللہ کے موافق ہے۔”

• ان تمام صورتوں میں قرآن و سنت کو پس پشت ڈالا جاتا ہے اور کسی انسان کے اجتہادی یا غیر اجتہادی قول کو مطلقاً دین سمجھ لیا جاتا ہے۔ یہی وہ تقلیدِ مذموم ہے جسے علمائے امت نے ناجائز قرار دیا ہے۔

(حوالہ: اعلام الموقعین، ص187)

مروجہ تقلید اور اس کے نقائص

• آج عمومی طور پر (خصوصاً پاکستان، افغانستان اور ہندوستان میں) جس تقلید پر عمل ہو رہا ہے، وہ بیشتر صورتوں میں اسی تقلیدِ مذموم کے زمرے میں آتی ہے۔
• یہاں کسی ایک مخصوص امام کی اجتہادی اور غیر اجتہادی دونوں قسم کی آراء کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث پر نہ صرف ترجیح دی جاتی ہے، بلکہ بسا اوقات صحیح احادیث کو ترک کرنے کے لیے طرح طرح کے غیر شرعی بہانے بھی تراشے جاتے ہیں۔
• مقلدین کی بعض بنیادی کتب مثلاً "تنظیم الاشتات” اور "ہدایہ” میں (کتاب الطہارت سے کتاب الوصایا تک) شاید ہی کوئی مقام ملے جہاں یہ کہا گیا ہو کہ "اس مسئلے میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب کمزور ہے اور امام شافعی یا امام مالک رحمہ اللہ کا مذہب راجح ہے۔”
• نتیجتاً درست اور قوی دلیل پر مبنی رائے کو صرف اس لیے قبول نہیں کیا جاتا کہ وہ "اپنے” امام کی رائے سے مختلف ہے، خواہ وہ دلیل کتنی ہی واضح کیوں نہ ہو۔

علمائے امت کے تئیں نامناسب رویہ

• تقلید کے اس بے آب و گیاہ صحراء میں چلنے والے سخت متعصب مقلدین، امت کے بڑے بڑے علماء کو بھی (جو ان کے امام سے متفق نہ ہوں) کم تر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
• امام شافعی رحمہ اللہ جیسی بلند پایہ علمی شخصیت کو بھی بعض مقلدین نے ایسا بنا کر پیش کیا کہ گویا وہ ایک طفلِ مکتب ہوں۔
• یہی نہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محفوظ من اللہ زبانِ مبارک سے نکلی ہوئی احادیثِ صحیحہ کی تاویلیں کر کے اپنے امام کے اقوال کو ان پر فوقیت دے دینا، دین کے ساتھ سب سے بڑی بے ادبی ہے۔
• اس سب کے باوجود یہ مقلدین خود کو "اہلِ ادب” اور دوسروں کو "بے ادب” کہنے سے نہیں ہچکچاتے۔

ایک ہی عالم کو "امام فی الدین” ماننا

• مذکورہ طرزِ عمل کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ امت کے تمام اہلِ علم کو چھوڑ کر صرف ایک عالم کو "امام فی الدین” تسلیم کر لیا جاتا ہے۔
• ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس رویے پر سنجیدگی سے غور کرے اور محض ضد یا عناد کی بنا پر اپنی آخرت خطرے میں نہ ڈالے۔

 2) تقلیدِ ممدوح

بعض لوگ تقلید کی ایک قسم کو "تقلیدِ ممدوح” کے نام سے بیان کرتے ہیں اور اسے یوں جائز قرار دیتے ہیں کہ جب کوئی شخص:

• کسی مسئلے کو سمجھنے سے قاصر ہو تو کسی عالم کے پاس جا کر اس کے حل کے لیے رہنمائی حاصل کرے۔
• یا اگر قرآن و حدیث میں خود کسی مسئلے کا حل نہ ملے (یا سمجھ نہ آئے) تو کسی معتبر عالم سے مشورہ کرے۔
• کوئی نیا واقعہ پیش آجائے جس کا براہِ راست حل قرآن و حدیث کے الفاظ میں بظاہر نہ ملے تو اس پر تحقیق کے لیے عالم سے رابطہ کیا جائے۔

اس ساری صورتِ حال کو "تقلیدِ ممدوح” سے تعبیر کیا جاتا ہے، اور کہا جاتا ہے کہ یہ دراصل قرآن وحدیث کی مخالفت نہیں بلکہ علمی مجبوری ہے۔

تقلیدِ ممدوح کو غلط قرار دینے کی وجوہات

علمائے محققین کے نزدیک اس نام نہاد "تقلیدِ ممدوح” کو بھی چند پہلوؤں سے غلط سمجھا جاتا ہے:

  1. بدعت ہونا

    – ان کے نزدیک خیرالقرون میں اس تقلید (بحیثیت ایک مستقل اصطلاح اور باقاعدہ مذہب) کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔
    – نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "كل بدعة ضلالة وكل ضلالة في النار” (مشکوٰۃ، ج1 ص30) یعنی ہر نیا کام دین میں بدعت، ہر بدعت گمراہی اور ہر گمراہی انسان کو جہنم تک لے جاتی ہے۔
    – گویا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر بدعت کو گمراہی قرار دیا ہے تو تقلید کو ممدوح اور مذموم کہہ کر تقسیم کرنا ایسا ہی ہے جیسے بدعت کو بدعتِ سیئہ اور بدعتِ حسنہ کے خانوں میں بانٹ دیا جائے، جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح حدیث کے خلاف ہے۔
    – مزید تشریح کے لیے (الاعتصام، ج1 ص191) اور (السنن والمبتدعات، ص15) نیز (فتاوی الدین الخالص، ج1 ص104) کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

  2. تقلیدِ جامد اور تقلیدِ شخصی کا دروازہ کھولنا

    – جب "تقلیدِ ممدوح” کے نام پر یہ اجازت مل جاتی ہے کہ عام شخص اپنے سمجھنے کی صلاحیت کے باوجود محض "مجبوری” کی وجہ سے کسی امام کی ہر بات مان لے، تو بعض لوگ اس کو بنیاد بنا کر "تقلیدِ جامد” (بغیر دلیل ماننا) اور "تقلیدِ شخصی” (صرف ایک امام کی تقلید) کو بھی جائز ٹھہرانے کی کوشش کرتے ہیں۔
    – پھر اپنی اسی تقلید کی خاطر قرآن و حدیث میں تاویلیں کرتے ہیں، اور اگر کوئی ان پر اعتراض کرے تو "تقلیدِ ممدوح” کا سہارا لے کر خود کو "متبعِ سنت” قرار دیتے ہیں۔
    – یوں ایک غلط کام کو خوبصورت نام دے کر دین میں جائز بنانے کی مذموم سعی کی جاتی ہے۔

  3. واقعی صورت حال سے دور ہونا

    – تقلیدِ ممدوح کا ایک مفروضہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ اگر کسی عام شخص کو قرآن و حدیث میں مسئلہ نہ ملے تو وہ کسی عالم کے پاس چلا جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ عالم زندہ ہے یا وفات یافتہ امام؟
    – اگر کوئی جاہل شخص کسی وفات یافتہ امام (مثلاً امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ) سے مسئلہ پوچھنا چاہے گا تو یہ کیسے ممکن ہے؟ نہ اس امام کی اپنی کوئی کتاب آج رائج ہے جسے براہِ راست دیکھ کر حکم معلوم کیا جائے، نہ امام سے براہ راست سوال ممکن ہے۔
    – پھر اگر وہ کسی موجودہ عالم کے پاس جاتا ہے تو اسے "حنفی، شافعی، مالکی” یا "حنبلی” کہلانے کا کیا مطلب ہے؟ وہ تو عملاً اس عالم کی رائے لے رہا ہے، نہ کہ امام کے براہِ راست ارشاد پر عمل کر رہا ہے۔
    – یہی نہیں، وہ عالم اگر حقیقی عالم ہے تو اسے قرآن و حدیث سے رہنمائی دے گا، نہ کہ اپنی رائے سے۔ اگر وہ عالم کہے کہ "اس مسئلے کا حل قرآن و حدیث میں ایسے ہے”، تو پھر تو اتباعِ دلیل ہوئی نہ کہ تقلیدِ محض۔ اور اگر عالم محض اپنی رائے سے حکم بیان کرے تو دین میں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔

قرآن و حدیث کی تکمیل اور فرضی مسائل

• بعض مقلدین یہ موہوم دلیل دیتے ہیں کہ "اگر کبھی کوئی ایسا مسئلہ پیش آ جائے جو قرآن و حدیث میں موجود نہیں تو پھر کیا کریں؟”
• ہمارے نزدیک یہ بات حقیقت سے بعید ہے، کیونکہ قرآن و حدیث میں ہر اس ضرورت کی وضاحت موجود ہے جس کا تعلق انسان کی دنیا و آخرت سے ہو۔
• اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کو "تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ” (ہر چیز کی وضاحت) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو "رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ” قرار دیا ہے۔ اس میں کسی قسم کی کمی کا شائبہ تک نہیں۔
• پھر بھی اگر کوئی مسئلہ سمجھ نہ آئے تو علماء سے رجوع کرنے کا مطلب قرآن و حدیث کی دلیل معلوم کرنا ہے، نہ کہ بغیر کسی دلیل کے کسی رائے یا کسی مخصوص امام کی ہر بات ماننا۔
• لہٰذا جو شخص کسی عالم کے ذریعے قرآن و حدیث کی دلیل تک رسائی حاصل کرتا ہے، وہ کتاب و سنت کی پیروی کر رہا ہے، نہ کہ کسی انسان کی اندھی تقلید۔

خلاصہ اور اہم نکتہ

"تقلیدِ مذموم” سے مراد یہ ہے کہ کتاب و سنت کو چھوڑ کر کسی امام یا بزرگ کی ہر بات کو آخری معیار بنا لیا جائے۔ یہ تقلید ناجائز ہے۔
"تقلیدِ ممدوح” کا دعویٰ بھی عملی طور پر زیادہ تر انہی مفاسد کا دروازہ کھول دیتا ہے جو "تقلیدِ مذموم” کا حصہ ہیں۔
• اصل مطلوب یہ ہے کہ عام آدمی کو جب کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اہلِ علم سے رجوع کرے اور کتاب و سنت کی دلیل سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہو۔ اس کا نام "اتباع” ہے، جو کہ عین مطلوب ہے۔
• دین میں کسی بھی شخص کی ذاتی رائے یا فقہی رائے حجت نہیں جب تک وہ قرآن و حدیث کی دلیل پر مبنی نہ ہو۔

اس تمام گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ ایک طرف تقلید کے انتہائی نقصانات سے آگاہی حاصل ہو اور دوسری طرف یہ یقین پیدا ہو کہ ہماری نجات صرف اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور کتاب و سنت کی محکم رہنمائی میں ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اس راہِ حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1