آزاد اور غلام مرد کے لیے عورتوں کی جو تعداد مباح ہے اس سے بڑھ کر نکاح کرنا بھی حرام ہے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

آزاد اور غلام مرد کے لیے عورتوں کی جو تعداد مباح ہے اس سے بڑھ کر نکاح کرنا بھی حرام ہے
امام بخاریؒ نے باب قائم کیا ہے ”چار بیویوں سے زیادہ (بیک وقت ) آدمی نہیں رکھ سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
مثنى وثلث وربع
واؤ أو کے معنی میں ہے (یعنی دو بیویاں رکھو یا تین یا چار )
حضرت زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں ”یعنی دو یا تین یا چار جیسے سورۃ فاطر میں اس کی نظیر موجود ہے:
أولى أجنحة مِثنى وتلك وربع
”یعنی دو پنکھ والے فرشتے یا تین والے یا چار والے ۔“
[بخاري: قبل الحديث / 5098 ، كتاب النكاح]
(ابن حجرؒ) مذکورہ ترجمتہ الباب کا حکم بالا جماع ثابت ہے۔
[فتح البارى: 139/9]
➋ حضرت قیس بن حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں جب مسلمان ہوا تو میرے پاس آٹھ بیویاں تھیں ۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر یہ ذکر کیا تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
اختر منهن أربعا
”ان میں سے چار پسند کر لو۔“
[حسن صحيح: صحيح ابن ماجة: 1588 ، إرواء الغليل: 1885 ، صحيح ابو داود: 1939 ، كتاب الطلاق ، ابن ماجة: 1952 ، ابو داود: 2241]
➌ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ غیلان بن سلمہ مسلمان ہوئے تو ان کی دس بیویاں تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمايا:
خذ منهن أربعا
”ان میں سے چار رکھ لو ۔ “
[صحيح: صحيح ابن ماجة: 1989 ، كتاب النكاح ، إرواء الغليل: 1883 ، ابن ماجة: 1953 ، أحمد: 14/2 ، ترمذي: 1128 ، ابن حبان: 4156 – الإحسان ، حاكم: 192/2 ، بيهقي: 149/7 ، شرح السنة: 2288 ، ابن أبى شيبة: 317/4 ، ترتيب المسند للشافعي: 16/2]
➍ نوفل بن معاویہ مسلمان ہوئے تو ان کی پانچ بیویاں تھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کہا:
أمسك أربعا وفارق الأخرى
”چار کو رکھ لو اور دوسری یعنی پانچویں کو چھوڑ دو ۔“
[ضعيف: ترتيب المسند للشافعي: 16/2 ، شرح السنة: 90/9 ، بيهقي: 184/7 ، اس كي سند امام شافعیؒ كے شيخ كے مجهول هونے كي وجه سے ضعيف هے۔]
(جمہور ) چار سے زائد عورتوں سے بیک وقت نکاح کرنا حرام ہے۔
(اہل ظاہر ) نوعورتوں سے بیک وقت نکاح کیا جا سکتا ہے (ان کے نزدیک آیت: مَثْنَى وَثلْتُ وَرُبَع میں واؤ جمع کے لیے ہے) ۔
[نيل الأوطار: 230/4]
(راجح) پہلا موقف راجح ہے۔
(ابن تیمیہؒ) صحابہ نے چار عورتوں سے زیادہ عورتیں نکاح میں جمع کرنے کی حرمت پر اجماع کیا ہے۔
[الفتاوي: 216/3 ، التعليقات الرضية للألباني: 191/2]
(ابن قدامہؒ) آزاد مرد کے لیے چار بیویوں سے زیادہ جمع کرنا ناجائز ہے اور اس پر اہل علم کا اجماع ہے ۔
[المغنى: 471/9]
(صاحب البحر ، صاحب تفسیر اللباب) چار سے زائد بیویوں کی حرمت پر امت کا اجماع ہے۔
[البحر الزخار: 35/3 ، تفسير اللباب فى علوم الكتاب: 164/6]
تا ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جو بیک وقت نو بیویاں تھیں ۔
[بخاري: 284 ، كتاب الغسل]
اس کی بعض دینی و سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت دے رکھی تھی اور یہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی خاص تھا جیسا کہ حافظ ابن حجرؒ رقمطراز ہیں کہ ”علماء نے اتفاق کیا ہے کہ چار سے زائد بیویاں (بیک وقت ) نکاح میں رکھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے۔ مزید حافظ ابن حجرؒ نے ”فتح الباری“ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیادہ شادیوں کی تقریبا دس حکمتیں نقل فرمائی ہیں تفصیل کا طالب اس کی طرف رجوع کر سکتا ہے۔
[فتح البارى: 115/9 ، تلخيص الحبير: 137/3]
➊ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”غلام دو عورتوں سے نکاح کرتا ہے، دو طلاقیں دیتا ہے اور لونڈی دو حیض عدت گزارتی ہے ۔“
[صحيح: إرواء الغليل: 2067 ، دار قطني: 308/3 ، بيهقي: 425/7]
➋ حکم بن عتیبہ کہتے ہیں: صحابہ نے اجماع کیا ہے کہ غلام دو سے زیادہ نکاح نہیں کر سکتا۔
[ابن أبى شيبة: 16044 ، بيهقى: 158/7]
امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ صحابہ میں اس کا کوئی مخالف معروف نہیں۔
[نقل البيهقى قول الشافعى فى المعرفة: 281/5]
(ابن تیمیهؒ ، ابن منذرؒ ، سعدی ابو حبیبؒ) اس مسئلے پر اجماع ہو چکا ہے۔
[مراتب الإجماع: ص/ 63 ، الإجماع لابن المنذر: ص/ 97 ، موسوعة الإجماع لأبي حبيب: 453/1]
(ابن قدامہؒ) اہل علم نے اجماع کیا ہے کہ غلام صرف دو نکاح کر سکتا ہے۔
[المغني: 472/9]
(احمدؒ ، شافعیؒ ، ابو حنیفہؒ) اس کے قائل ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ، امام عطاءؒ ، امام حسنؒ ، امام شعبیؒ ، امام قتادہؒ اور امام ثوریؒ بھی یہی موقف رکھتے ہیں۔
[أيضا]
(مالکؒ) غلام چار نکاح کر سکتا ہے کیونکہ آیت کے عموم میں یہ بھی شامل ہے ۔
[اللباب فى علوم الكتاب: 124/6]
(شوکانیؒ ) زیادہ مناسب بات یہی ہے کہ غلام بھی آیت کے عموم میں شامل (ہونے کی وجہ سے چار نکاح کر سکتا ) ہے ۔
[نيل الأوطار: 231/4]
(راجح) پہلا موقف ہی راجح معلوم ہوتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1