حیض کی حالت میں عمرے کا احرام باندھنا
فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : ایک خاتون دریافت کرتی ہے کہ وہ حیض میں مبتلا تھی۔ اس کے اہل خانہ نے عمرہ کرنے کا ارادہ کیا۔ اگر وہ گھر والوں کے ساتھ نہ جاتی تو گھر پر اکیلی رہ جاتی۔ لہٰذا وہ ان کے ساتھ عمرے کے لئے روانہ ہو گئی اور عمرے کے تمام مناسک، بشمولی طواف و سعی اس طرح ادا کئے گویا کہ اس پر مانع عمرہ کوئی عذر نہیں تھا، اور اس نے یہ سب کچھ عدم واقفیت اور شرمساری کی بناء پر کیا۔ کہ اسے اپنی اس حالت کے متعلق اپنے سرپرست (باپ وغیرہ) کو بتانا پڑتا۔ خاص طور پر اس لئے بھی کہ وہ ایک ان پڑھ عورت ہے، لکھنا پڑھنا نہیں جانتی۔ دریں حالات اب اسے کیا کرنا چاہئیے ؟
جواب : اگر اس نے اہل خانہ کے ساتھ عمرے کا احرام باندھا تھا تو اس پر غسل کرنے کے بعد دوبارہ طواف کرنا ضروری ہے، اسی طرح وہ حلال ہوتے وقت اپنی چٹیا کے بال بھی کاٹے، البتہ علماء کے صحیح قول کی رو سے اس کی سعی درست ہے اور وہی اس کے لئے کافی ہے ویسے احتیاط اور افضلیت اسی میں ہے کہ وہ طواف کرنے کے بعد سعی بھی دوبارہ کرے۔ اسے حیض کی حالت میں طواف کرنے اور طواف دو رکعت نماز پڑھنے پر اللہ تعالیٰ سے معانی مانگنی چاہیئے۔
اگر عورت شادی شدہ ہے تو وہ عمرے کی تکمیل تک خاوند کے لئے حلال نہیں ہو گی اور اگر اس کا خاوند عمرہ مکمل ہونے سے پہلے اس سے جماع کر چکا ہے تو اس عورت کا عمرہ فاسد ہو جائے گا اور اس پر ایک سالہ چھترا یا دو سالہ (دوندا) بکرا بطور فدیہ مکہ میں ہی وہاں کے فقراء کے لئے ذبح کرنا واجب ہو گا اور جیسا کہ ہم نے ابھی بتایا ہے اسے عمرہ بھی مکمل کرنا ہو گا۔ یعنی اس نے جہاں سے پہلے عمرہ کا احرام باندھا تھا وہیں سے دوبارہ احرام باندھ کر فاسد عمرے کی جگہ ایک اور عمرہ اسے کرنا
ہو گا۔ ہاں اگر عورت نے شرم و حیا کی وجہ سے اہل خانہ کے ساتھ طواف وسعی تو کی مگر اس نے میقات سے احرام نہیں باندھا تھا تو اسے توبہ کے علاوہ کچھ نہیں کرنا ہو گا، کیونکہ حج اور عمرے کے لئے احرام باندھنا شرط ہے اور احرام کا مطلب ہے عمرہ یا حج یا دونوں کی نیت کرنا۔ ہم، سب کے لئے اللہ تعالیٰ سے ہدایت اور شیطان کے حملے سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔

 

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے