سوال
کیا تجارت میں نفع حاصل کرنے کے لیے محنت اور کوشش کرنا تقدیر کے خلاف ہے؟ یعنی اگر کوئی شخص تجارت میں کامیابی کے لیے محنت کرتا ہے، تو کیا اس کا تقدیر پر ایمان باقی رہتا ہے؟
آپ کا بھائی: محمد اسماعیل
الجواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ولا حول ولا قوة إلا بالله
محنت کرنا تقدیر کے خلاف نہیں، بلکہ تقدیر کے موافق ہے۔
تقدیر کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے اور یہ عقیدہ رکھے کہ جو کچھ مقدر میں ہے، وہ خود بخود آ جائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے تقدیر میں انسان کے لیے اسباب مقرر کیے ہیں، اور شریعت میں محنت اور کوشش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
1. تقدیر اور عمل کا باہمی تعلق
📖 حدیث مبارکہ:
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کیا۔
جس شخص کے خلاف فیصلہ ہوا، جب وہ جانے لگا تو کہنے لگا:
"حسبی اللہ ونعم الوکیل” (مجھے اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ عاجزی (کاہلی) کو ناپسند کرتا ہے۔ تمہیں سمجھداری اور حکمت کے ساتھ عمل کرنا چاہیے، پھر اگر کوئی تم پر غالب آجائے، تب ‘حسبی اللہ ونعم الوکیل’ کہنا چاہیے۔”
(سنن ابی داود: 3627، مشکوٰۃ: 328/2)
یہ حدیث اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اسباب کو اختیار کرنا ضروری ہے، اور محنت کرنا تقدیر کے خلاف نہیں بلکہ عین تقدیر کے مطابق ہے۔
2. محنت اور تقدیر کی مثالیں قرآن و حدیث سے
اللہ تعالیٰ نے انسان کو عمل کا حکم دیا اور اس کے نتیجے کو اپنی تقدیر سے جوڑا ہے۔
📖 قرآن کریم میں ارشاد ہے:
"جو شخص صلہ رحمی کرتا ہے، میں اس کی عمر بڑھا دیتا ہوں، اور جو نہیں کرتا، اس کی عمر میں اضافہ نہیں ہوتا۔”
(صحیح بخاری: 5986، صحیح مسلم: 2557)
"جو محنت کرے گا، میں اسے مال عطا کروں گا، اور جو نہیں کرے گا، اسے نہیں دوں گا۔”
یہ اصول دنیاوی رزق کے متعلق بھی ہے۔
"جو اللہ کی اطاعت کرے گا، وہ کامیاب ہوگا، اور جو نافرمانی کرے گا، وہ نقصان اٹھائے گا۔”
(النساء: 13-14)
اللہ تعالیٰ نے تقدیر کو اسباب کے ساتھ جوڑ دیا ہے، یعنی اگر کوئی شخص رزق کے حصول کے لیے جائز کوشش کرے گا، تو اللہ اس کے لیے آسانی پیدا کرے گا۔
3. تجارت میں محنت اور اسلامی تعلیمات
اسلام میں تجارت کرنا اور جائز منافع حاصل کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے، لیکن اس میں اعتدال ضروری ہے۔
کسی کو کسبِ معاش میں اس قدر مصروف نہیں ہو جانا چاہیے کہ عبادات اور دیگر دینی ذمہ داریوں کو بھول جائے۔
بازار میں شور مچانا اور غیر اخلاقی طریقے اپنانا ممنوع ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
📖 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اپنے آپ کو بازاروں میں شور مچانے سے بچاؤ۔”
(سنن ابی داود: 4785، مسند احمد: 17941)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تجارت میں اچھے اخلاق، دیانت داری اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔
4. نتیجہ
✔ تجارت میں محنت کرنا تقدیر کے خلاف نہیں بلکہ عین موافق ہے۔
✔ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو اسباب کے ساتھ جوڑا ہے، اس لیے جائز طریقے سے محنت کرنا ضروری ہے۔
✔ اسلام نے کاہلی اور سستی سے منع کیا ہے اور عقل و تدبیر کے ساتھ کام کرنے کی ترغیب دی ہے۔
✔ محنت کے ساتھ اللہ پر توکل کرنا چاہیے، کیونکہ تمام کامیابی بالآخر اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
لہذا، تجارت میں کوشش اور محنت کرنا نہ صرف جائز بلکہ مستحب عمل ہے، اور یہ تقدیر کے خلاف نہیں بلکہ تقدیر کے عین مطابق ہے۔
واللہ اعلم بالصواب