گائے کی زکوٰۃ:
وَيَجِبُ فِي ثَلَاثِينَ مِنَ الْبَقَرِ تَبِيعُ أَوْ تَبَيِّعَةٌ وَفِي أرْبَعِينَ مُسِنَّةٌ ثُمَّ كَذَلِكَ
تین گائیوں پر ایک سالہ مادہ گائے یا نر بچھڑا اور چالیس پر دو سال کا بیل یا گائے واجب ہے
تبیع:
گائے کا ایسا نر بچہ جو ایک سال کی عمر پوری کر کے دوسرے سال میں قدم رکھ چکا ہو اور اسے تبیع اس لیے کہتے ہیں کیونکہ یہ اپنی ماں کے پیچھے چلنے لگتا ہے۔
تبیعہ:
تبیع کے مادہ کو تبیعہ کہتے ہیں۔
مسنہ:
ایسا جانور جس کے دو دانت نکل آئے ہوں (یعنی دو سال مکمل کر کے تیسرے میں داخل ہو چکا ہو) ۔
[تحفة الأحوذى: 297/3 ، التعليقات الرضية على الروضة الندية: 494/1]
➊ گائیوں میں زکوۃ واجب ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ :
ولا صـاحـب بـقـر ولا غـنـم لا يؤدى منها حقها إلا إذا كان يوم القيمة بطح لها بقاع قرقر
”گائے اور بکریوں کا جو مالک بھی ان کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا تو قیامت کے دن اس کو ان کے لیے چٹیل وسیع میدان میں (منہ کے بل ) گرایا جائے گا۔“
[مسلم: 987 ، كتاب الزكاة: باب إثم مانع الزكاة]
(نوویؒ) گائے کی زکوٰۃ کے متعلق مروی احادیث میں سے یہ سب سے زیادہ صحیح ہے ۔
[شرح مسلم: 76/4]
➋ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن کی طرف (عامل مقرر کر کے ) بھیجا:
فأمره أن بأخذ من كل ثلاثين بقرة تبيعا أو تبيعة ومن كل أربعين مسنة
”اور ان کو حکم دیا کہ وہ تیسں گائیوں میں ایک سالہ مادہ گائے یا نر بچھڑا وصول کریں اور ہر چالیس کی تعداد پر ایک دو سالہ بچھڑا لیا جائے ۔“
[صحيح: إرواء الغليل: 795 ، أحمد: 230/5 ، أبو داود: 1578 ، كتاب الزكاة: باب فى زكاة السائمة ، ترمذى: 623 ، نسائي: 25/5 ، ابن ماجة: 1803 ، حاكم: 398/1]
(عبدالرحمٰن مبارکپوریؒ) یہ حدیث گائیوں میں وجوب زکوٰۃ کی دلیل ہے اور اس کا نصاب وہی ہے جو (اس میں ) ذکر کر دیا گیا ہے۔
[تحفة الأحوذي: 297/3]
(ابن عبد البرؒ ) علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ گائے کی زکوٰۃ میں سنت وہی ہے جو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے۔
[نيل الأوطار: 87/3 ، تلخيص الحبير: 300/2]
(یوسف قرضاوی) گائے میں زکوٰۃ سنت ہے اور اجماع کے ساتھ ثابت ہے۔
[فقه الزكاة: 192/1]
(ابن منذرؒ) بھینس بھی بالا جماع گائے کی ہی ایک قسم ہے۔
[المغنى: 594/2 ، فقه الزكاة: 192/1]