سوال:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ ہر وقت اور ہر مجلس میں ذاتی طور پر اور علم کے لحاظ سے حاضر و ناظر ہیں، مگر ہم انہیں دیکھ نہیں سکتے کیونکہ وہ نور ہیں جو نظر نہیں آ سکتا، اور وہ بشر نہیں ہیں۔ وہ اس عقیدے کے ثبوت میں رسول اللہ ﷺ کے اس قول سے استدلال کرتے ہیں:
"السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ”
"سلام ہو تجھ پر اے نبی اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں”
کیا یہ عقیدہ درست ہے؟
الجواب:
الحمدللہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ، أما بعد!
➊ نبی کریم ﷺ کو حاضر و ناظر ماننے کا عقیدہ غلط ہے
جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ رسول اللہ ﷺ یا کوئی اور غیب جانتے ہیں، وہ کفر کا مرتکب ہے اور یہ اسلامی شریعت، ایمان اور فرضی عقائد کے سراسر خلاف ہے۔
📖 اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ”
"کہہ دو! آسمانوں اور زمین میں کوئی بھی غیب کو نہیں جانتا، سوائے اللہ کے۔”
(سورۃ النمل: 65)
اگر کوئی شخص نبی کریم ﷺ کو بشر نہ مانے، تو وہ سب سے بدترین کافر ہے، کیونکہ یہ قرآن و سنت کی واضح نصوص کا انکار ہے۔
📖 اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ”
"کہہ دو! میں تمہارے جیسا ایک بشر ہوں، مجھ پر وحی کی جاتی ہے۔”
(سورۃ الکہف: 110)
ایسا عقیدہ رکھنے والا دراصل شیطان کے دھوکے میں ہے اور اپنی خواہشات کی پیروی کر رہا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی گمراہی سے محفوظ رکھے۔
➋ السلام علیک ایھا النبی سے استدلال کی حقیقت
بعض لوگ یہ عقیدہ "السلام علیک ایھا النبی” والی حدیث سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر یہ استدلال کئی وجوہات کی بنا پر غلط ہے:
(1) یہ خطاب حکایت (نقل) کے طور پر ہے
جیسے قرآن میں ہے:
"وَقَالَ فِرْعَوْنُ يَا هَامَانُ”
"اور فرعون نے کہا: اے ہامان!”
(سورۃ غافر: 36)
"وَنَادَىٰ مُوسَىٰ”
"اور موسیٰ نے پکارا!”
(سورۃ طٰہٰ: 11)
یہ صرف الفاظ کی نقل (حکایت) ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ فرعون یا موسیٰ علیہ السلام ہمیشہ حاضر ہیں۔
(2) صحابہ کرام نے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد اسے بدلا
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد "السلام علیک” کی جگہ "السلام علی النبی” پڑھنا شروع کیا۔
📖 امام بخاری (حدیث: 9026)، امام مسلم، مسند احمد (1/414)، بیہقی (2/138)، عبدالرزاق (2/204) میں یہ روایت موجود ہے کہ:
"حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نبی کریم ﷺ کی حیات میں "السلام علیک ایھا النبی” پڑھتے تھے، مگر جب آپ کی وفات ہو گئی، تو ہم نے "السلام علی النبی” پڑھنا شروع کر دیا۔”
اگر نبی کریم ﷺ ہر وقت حاضر و ناظر ہوتے تو صحابہ کرام "السلام علیک” کو تبدیل نہ کرتے۔
(3) خطاب کا مطلب ہمیشہ موجود ہونا نہیں ہوتا
عربی زبان میں کسی کو خطاب کرنا، اس کے ہر وقت حاضر ہونے کی دلیل نہیں ہوتی۔
📖 یہی اصول مولانا خلیل احمد بانپوری نے اپنی کتاب "البراہین القاطعہ” میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔
➌ خلاصہ
نبی کریم ﷺ کو ہر وقت اور ہر جگہ حاضر و ناظر ماننے کا عقیدہ باطل اور قرآن و حدیث کے خلاف ہے۔
نبی کریم ﷺ بشر ہیں، نور نہیں، جیسا کہ قرآن میں واضح ہے۔
"السلام علیک ایھا النبی” سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نبی ﷺ ہر وقت حاضر ہیں، کیونکہ صحابہ نے وفات کے بعد اسے "السلام علی النبی” میں تبدیل کر دیا تھا۔
خطاب کرنا ہمیشہ موجود ہونے کی دلیل نہیں ہوتا، بلکہ یہ عربی زبان کا ایک اسلوب ہے۔
لہذا، یہ عقیدہ کہ نبی کریم ﷺ ہر مجلس میں حاضر ہوتے ہیں اور ہر جگہ موجود ہیں، ایک باطل عقیدہ ہے جس کی کوئی شرعی دلیل موجود نہیں۔
واللہ أعلم بالصواب