منی کی پاکیزگی یا ناپاکی کے بارے میں علماء کا اختلاف
ماخوذ: فتاوی علمیہ، جلد1، كتاب العقائد، صفحہ210

سوال:

کیا منی پاک ہے؟ بعض لوگ اہل حدیث پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ منی کو پاک قرار دیتے ہیں، اس بارے میں وضاحت کریں۔

الجواب:

الحمدللہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ، أما بعد!

➊ منی کی پاکیزگی کے بارے میں علماء کا اختلاف

ہمارے نزدیک راجح موقف یہ ہے کہ منی ناپاک (نجس) ہے۔

📖 لیکن اس مسئلے میں قدیم زمانے سے اختلاف چلا آ رہا ہے، جیسا کہ محمد تقی عثمانی دیوبندی لکھتے ہیں:

"منی کی نجاست و طہارت کے بارے میں اختلاف ہے، یہ اختلاف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور سے چلا آ رہا ہے۔ صحابہ کرام میں سے حضرت ابن عمر، ابن عباس اور ائمہ میں سے امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک منی طاہر (پاک) ہے۔”
(درس ترمذی، ج1، ص 346)

یعنی امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ کے بعض شاگردوں نے منی کو پاک کہا ہے۔

➋ اہل حدیث علماء کا موقف

📖 محمد رئیس ندوی لکھتے ہیں:

"حنبلی مذہب میں مطلقاً آدمی کی منی طاہر ہے اور جمہور حنابلہ کا یہی مذہب ہے۔”
(الإنصاف فی معرفة الراجح من الخلاف، 1/340-341)

یہی موقف شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کا بھی تھا، جیسا کہ غنیۃ الطالبین (ص 70) میں مذکور ہے۔

📖 امام نووی رحمہ اللہ نے بھی لکھا:

"بہت سے اہل علم منی کو طاہر (پاک) سمجھتے ہیں، جیسا کہ حضرت علی، سعد بن ابی وقاص، ابن عمر، عائشہ رضی اللہ عنہم سے یہی مروی ہے۔ امام داود ظاہری، امام احمد (ایک روایت کے مطابق)، امام شافعی اور اہل حدیث کا یہی مذہب ہے۔”
(شرح مسلم للنووی، ج1، ص 140، والمجموع، ابواب الطہارۃ)

لیکن بعض اہل حدیث علماء نے تحقیق کے بعد منی کو ناپاک قرار دیا ہے، جیسا کہ:

امام شوکانی (نیل الاوطار، ج1، ص 67)

نواب صدیق حسن خان (تحفۃ الأحوذی، ج1، ص 115)

دیگر محقق سلفی علماء

چنانچہ اس مسئلے میں صحابہ کرام، تابعین اور ائمہ کے درمیان بھی اختلاف رہا ہے، لہٰذا کسی ایک موقف کو "نیا مذہب” کہنا غلط ہے۔

➌ راجح (مضبوط) موقف

ہمارے نزدیک راجح یہی ہے کہ منی ناپاک اور نجس ہے، اور اسے پاک کہنا درست نہیں۔

یہ مسئلہ قدیم زمانے سے اختلافی ہے، اور اہل حدیث علماء نے اپنے اجتہاد کے مطابق بعض اقوال کو اختیار کیا ہے، جیسا کہ دیگر فقہاء نے کیا۔

لہذا، یہ کہنا کہ "یہ صرف اہل حدیث کا نظریہ ہے” یا "یہ نیا نظریہ ہے” غلط ہے، کیونکہ اس میں صحابہ کرام اور ائمہ کے درمیان بھی اختلاف رہا ہے۔

اہل حدیث کو بدنام کرنے کے لیے جھوٹے پروپیگنڈے سے گریز کرنا چاہیے۔

واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1