قرآن مجید گر جانے پر کفارہ اور شریعت کا حکم
ماخوذ: فتاویٰ الدین الخالص، ج1، ص91

سوال:

اگر کسی کے ہاتھ سے بغیر ارادے کے قرآن مجید گر جائے، تو کیا اس کا کوئی کفارہ ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس کے کفارے میں دس درہم صدقہ کرنا ضروری ہے، اس بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ولا حول ولا قوة الا باللہ۔

قرآن مجید گر جانے کی صورت میں حکم:

اگر کسی کے ہاتھ سے غیر اختیاری طور پر (بلا قصد) قرآن مجید گر جائے تو اس کا کوئی کفارہ نہیں ہے، بلکہ احتیاط سے اور دائیں ہاتھ سے مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں:

﴿خُذوا ما ءاتَينـٰكُم بِقُوَّةٍ﴾
"(اور کہا) جو ہم نے تمہیں دیا ہے، اسے مضبوطی سے تھام لو”
(سورۃ البقرہ: 63)

اس آیت کی روشنی میں ظاہری طور پر قرآن مجید کو مضبوطی سے پکڑنا بھی شامل ہے، جس طرح اس پر عمل کرنا بھی مطلوب ہے۔

استغفار کرنا کافی ہے:

اگر قرآن مجید غیر ارادی طور پر ہاتھ سے گر جائے تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے استغفار کرنا چاہیے، کیونکہ اللہ نے اس امت کی خطا اور بھول چوک کو معاف کر دیا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿رَ‌بَّنا لا تُؤاخِذنا إِن نَسينا أَو أَخطَأنا﴾
"اے ہمارے رب! اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کر بیٹھیں تو ہمیں نہ پکڑنا”
(سورۃ البقرہ: 286)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس دعا کے جواب میں فرمایا:
"قد فعلت” یعنی "میں نے معاف کر دیا”۔
(صحیح مسلم: 1/78)

مزید تفصیل کے لیے ابن کثیر رحمہ اللہ کی تفسیر (1/341) ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔

کیا دس درہم صدقہ کرنا ضروری ہے؟

ہمیں اس کی کوئی دلیل نہیں ملی کہ قرآن گرنے کے کفارے کے طور پر دس درہم صدقہ کیا جائے۔
البتہ، حیض کی حالت میں بیوی سے جماع کرنے کے کفارے میں صدقے کا ذکر آیا ہے، جسے "کتاب الطہارہ” میں بیان کیا جائے گا، ان شاء اللہ۔

نتیجہ:

اگر قرآن غیر ارادی طور پر گر جائے تو اس کا کوئی کفارہ نہیں، صرف اللہ سے استغفار کرنا کافی ہے۔
قرآن کو مضبوطی سے پکڑنا چاہیے تاکہ بے ادبی نہ ہو، اور دائیں ہاتھ سے سنبھالنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
دس درہم صدقہ کرنے کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ نے خطا اور نسیان کو معاف فرما دیا ہے، جیسا کہ قرآن و حدیث میں وضاحت موجود ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1