آسمان و زمین کی مسافت اور اللہ کی بلندی سے متعلق حدیث
ماخوذ: فتاوی علمیہ، جلد1، كتاب العقائد، صفحہ122

حدیث کا متن:

حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم بطحاء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے تھے، ایک بادل گزرا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا:
"تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟”
ہم نے عرض کیا: "یہ بادل ہے۔”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ مزن ہے۔”
ہم نے کہا: "ہاں، یہ مزن ہے۔”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا: "اور عنان؟”
ہم خاموش رہے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "کیا تم جانتے ہو زمین اور آسمان کے درمیان کتنی مسافت ہے؟”
ہم نے عرض کیا: "اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ جانتے ہیں۔”
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے، ہر آسمان کی موٹائی پانچ سو سال ہے، پھر ایک سمندر ہے جس کی مسافت زمین و آسمان کے درمیان مسافت کے برابر ہے، اور اللہ تعالیٰ اس کے اوپر ہے۔ بنی آدم کے اعمال میں سے کوئی بھی عمل اس سے مخفی نہیں۔”

حدیث کے مصادر:

یہ روایت درج ذیل کتب حدیث میں منقول ہے:

ابو داود: (4723)
ابن ماجہ: (1)
مسند احمد: (ج 1، ص 206)
جامع ترمذی: (3320، حسن قرار دیا)
کتاب التوحید للامام ابن خزیمہ: (101، 102، مختلف طرق سے)
کتاب العلو للذہبی: (ص 108)

حدیث کی تحقیق:

یہ حدیث سند کے لحاظ سے ضعیف ہے، کیونکہ:

◈ سماک بن حرب اختلاط کا شکار ہوگئے تھے، اور یہ معلوم نہیں کہ ان کی یہ روایت قبل از اختلاط ہے یا بعد از اختلاط۔
◈ عبداللہ بن عمیرہ کا احنف بن قیس سے سماع معروف نہیں ہے۔ (التاریخ الکبیر للسخاوی: 5/159)

علامہ ذہبی رحمہ اللہ کی رائے:

علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے اس کے ایک طریق (سند) ابراہیم بن طہان عن سماک کو شاید صحیح قرار دیا ہے۔
(دیکھئے: ص 109، طبع الہند)

نتیجہ:

◉ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے، لیکن اس کی سند میں ضعف موجود ہے۔
◉ البانی رحمہ اللہ نے اسے ضعیف سنن ابی داود میں نقل کیا ہے۔
◉ اسناد کے ضعف کے باوجود بعض علماء نے اسے قابل استدلال قرار دیا ہے، جبکہ بعض محدثین نے اس پر جرح کی ہے۔

واللہ أعلم بالصواب۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1