مغربی ممالک میں جنسی جرائم اور آزادی کا دھوکہ
تحریر: شاہنواز فاروقی

پاکستان میں جنسی جرائم اور مغربی جنسی تعلیم کا فریب

پاکستان میں جب بھی کوئی ریپ کیس سامنے آتا ہے تو مغرب زدہ طبقہ مغربی جنسی تعلیم کو اس کا "واحد حل” قرار دیتا ہے، جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ مغربی سیکولر اور لبرل ممالک نہ صرف ان جرائم سے پاک ہیں بلکہ جنسی تعلیم کے ذریعے انہوں نے اپنے معاشرے کو "جنت” بنا لیا ہے۔ جبکہ پاکستان کو ایک مذہبی ملک ہونے کے ناتے جنسی جرائم کی آماجگاہ قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن اصل حقیقت کیا ہے؟ آئیے جائزہ لیتے ہیں۔

امریکہ: سیکولر اور لبرل ازم کی جنت یا جنسی جرائم کا جہنم؟

امریکہ، جسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور انسانی حقوق کا علَم بردار کہا جاتا ہے، وہاں عدالتی اور پولیس نظام مثالی تصور کیا جاتا ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ امریکہ جنسی درندوں کے لیے جنت اور خواتین و بچوں کے لیے جہنم بنا ہوا ہے۔

امریکہ میں ریپ کے اعداد و شمار

Rape, Abuse, and Incest National Network (RAINN) کی رپورٹ کے مطابق 1998ء سے اب تک امریکہ میں 1 کروڑ 77 لاکھ ریپ کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں سے 99% مجرموں کو سزا نہیں دی گئی۔
◄ جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین میں سے 13% نے خودکشی کر لی۔
◄ ہر سال امریکہ میں 3 لاکھ 21 ہزار 500 ریپ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔
◄ ہر 98 سیکنڈ میں امریکہ میں ایک شخص جنسی حملے کا شکار ہوتا ہے۔ (Huffington Post)
◄ ہر روز 570 افراد جنسی حملے کا نشانہ بنتے ہیں۔

امریکی بچوں پر جنسی حملے

◄ امریکی محکمۂ انصاف کی رپورٹ کے مطابق 2012ء میں 62,939 بچے جنسی حملے کا شکار ہوئے، لیکن 85% بچوں نے رپورٹ ہی درج نہیں کرائی۔
◄ 1998ء سے اب تک 18 لاکھ نوعمر بچے جنسی حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔

امریکی فوج میں جنسی جرائم

(نیویارک ٹائمز، 28 مئی 2014ء) کے مطابق 2012ء میں 26,000 فوجی مرد و خواتین جنسی حملے کا نشانہ بنے، لیکن صرف 3,374 کیس رپورٹ ہوئے۔
◄ 2013ء میں 5,061 کیسز درج ہوئے، لیکن صرف 376 مجرموں کو سزا دی گئی۔
◄ جو فوجی جنسی حملے کی شکایت کرتے ہیں، انہیں "Personality Disorder” کا الزام لگا کر نوکری سے نکال دیا جاتا ہے۔

امریکہ میں جنسی تعلیم کے باوجود جرائم میں اضافہ

◄ امریکہ کے اسکولوں میں 1920ء سے جنسی تعلیم دی جا رہی ہے، مگر اس کے باوجود وہاں جنسی جرائم کا طوفان برپا ہے۔
◄ ہر 98 سیکنڈ میں کوئی نہ کوئی شخص جنسی حملے کا شکار ہو رہا ہے، جو ثابت کرتا ہے کہ جنسی تعلیم ان جرائم کو روکنے میں ناکام رہی ہے، بلکہ یہ بچوں میں جنسی انحرافات کو بڑھا رہی ہے۔

یورپی ممالک میں جنسی جرائم

فرانس: یورپ کا سب سے سیکولر ملک

◄ ہر سال 75,000 ریپ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔
◄ 2012ء میں صرف 1,293 کیس رپورٹ ہوئے، جبکہ اصل تعداد کہیں زیادہ ہے۔
◄ 2014ء میں 5,000 سے 7,000 گینگ ریپ کے کیسز رپورٹ ہوئے۔
◄ فرانس میں 1973ء سے اسکولوں میں جنسی تعلیم موجود ہے، لیکن اس کے باوجود جرائم کی شرح کم نہیں ہوئی۔

برطانیہ: جنسی تعلیم کے باوجود جرائم کی شرح

◄ 2015ء سے برطانیہ میں جنسی تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا۔
◄ انگلینڈ اور ویلز میں ہر سال 97,000 ریپ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، یعنی ہر گھنٹے میں 11 کیسز۔
◄ صرف 15% کیس پولیس کے ریکارڈ میں آتے ہیں۔

دنیا میں جنسی جرائم میں سرفہرست ممالک

◄ امریکہ – ہر چھ میں سے ایک عورت ریپ کا شکار ہوتی ہے، جبکہ ہر 33 میں سے ایک مرد بھی جنسی زیادتی کا نشانہ بنتا ہے۔
◄ جنوبی افریقہ – سالانہ 65,000 سے زائد کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔
◄ سویڈن – ہر چار میں سے ایک عورت جنسی زیادتی اور ہر دو میں سے ایک عورت جنسی ہراسگی کا نشانہ بنتی ہے۔
◄ بھارت – ہر 22 منٹ میں ایک ریپ کیس رپورٹ ہوتا ہے، لیکن اصل تعداد کہیں زیادہ ہے۔
◄ انگلینڈ – ہر پانچ میں سے ایک عورت زندگی میں کم از کم ایک بار جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہے۔

مغربی میڈیا اور پاکستانی مغرب زدگان کا دوہرا معیار

◄ مغربی ممالک میں لاکھوں خواتین اور بچے جنسی درندگی کا شکار ہو رہے ہیں، لیکن وہاں کے میڈیا پر ان موضوعات کو نمایاں نہیں کیا جاتا۔
◄ اس کے برعکس پاکستان میں چند ریپ کیسز کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ پاکستانی معاشرے کو بدنام کیا جا سکے۔
◄ مغربی ممالک میں کسی مدرسے یا مولوی کا کوئی اثر نہیں، وہاں جنسی تعلیم اور آزادیٔ نسواں کے باوجود خواتین ریپ کا شکار ہو رہی ہیں۔

نتیجہ

اگر جنسی تعلیم واقعی جنسی جرائم کا حل ہوتی، تو مغرب میں جنسی درندگی کے واقعات میں کمی آتی، مگر وہاں جرائم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرب میں عورت کو آزادی کے نام پر استحصال کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ پاکستانی معاشرے کو بدنام کرنے والے مغرب زدگان کو مغربی ممالک کے اصل حالات دیکھنے کے بعد اپنی سوچ پر نظرثانی کرنی چاہیے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1