فوت شدہ نمازوں کی قضائی کا بیان
تحریر: عمران ایوب لاہوری

فوت شدہ نمازوں کی قضائی کا بیان

اس مسئلے میں اگرچہ اختلاف ہے لیکن راجح اور قوی بات یہی ہے کہ ایسے شخص پر قضاء واجب نہیں ہے۔ اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
➊ عمدا تارکِ نماز اسلام سے خارج ہے اور ایسے شخص پر توبہ و استغفار اور نئے سرے سے اسلام میں شمولیت لازمی ہے۔ قضاءِ نماز نہیں۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بين الرجل وبين الكفر ترك الصلاة
”مسلمان مرد اور کفر کے درمیان صرف نماز چھوڑنے کا ہی فرق ہے۔“
[مسلم: 82 ، كتاب الإيمان: باب بيان إطلاق اسم الكفر على من ترك الصلاة ، أبو داود: 4678 ، ترمذي: 2618 ، ابن ماجة: 1078 ، دارمي: 280/1 ، أحمد: 370/3]
➋ قرآن میں تارک نماز کو مشرک قرار دیا گیا ہے۔
ارشاد باری تعالٰی ہے کہ :
وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ
[الروم: 31]
”نماز قائم کرو اور مشرکوں سے نہ ہو جاؤ۔“
اور مشرک کا کوئی عمل جس میں قضاءِ نماز بھی شامل ہے قبول نہیں جیسا کہ قرآن میں ہے کہ :
وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ
[الأنعام: 88]
”اگر انبیاء بھی شرک کریں تو جو بھی وہ عمل کرتے تھے باطل ہو جائے۔“
➌ جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس لیے اسے صرف اتنی ہی مہلت دی جائے گی کہ وہ توبہ کرے اور نماز پڑھے اگر وہ ایسا نہیں کرتا (اور استطاعت موجود ہے ) تو اسے فوراََ قتل کر دیا جائے گا۔
جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أمرت أن أقاتل الناس حتى يشهدوا أن لا إله إلا الله ويقيمو الصلاة ……
”مجھے اس وقت تک لوگوں سے قتال کا حکم دیا گیا ہے جب تک کہ وہ کلمہ نہ پڑھ لیں اور نماز نہ ادا کرنے لگیں ۔“
[بخارى: 25 ، كتاب الإيمان: باب فإن تابوا وأقاموا الصلاة وآتوا الزكاة فخلوا سبيلهم ، مسلم: 22 ، أبو داود: 1556 ، ترمذي: 2607 ، نسائي: 14/5 ، أحمد: 423/2 ، شرح معاني الآثار: 213/3 ، ابن منده: 166/1]
➍ زکاۃ کے منکر سے قتال کرنے پر صحابہ کا اجماع ہے۔
[موسوعة الإجماع لسعدى أبو حبيب: 465/1 ، المغنى: 476/2 ، المجموع: 304/5]
اور یہ بات ثابت ہے کہ اسلام میں نماز کی اہمیت زکاۃ سے بھی زیادہ ہے۔
➎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں شرط کا لفظ من نسي استعمال کیا ہے اور شرط کے لیے یہ قاعدہ مسلم ہے کہ شرط کی نفی مشروط کی نفی کو مستلزم ہے یعنی جو بھول کر (یا سونے کی وجہ سے ) نماز چھوڑ دے وہ اس کی قضائی دے گا اور جو بھول کر نہیں بلکہ جان بوجھ کر نماز چھوڑے گا وہ قضائی نہیں دے گا۔
(ابن تیمیہؒ) جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے پر کوئی قضا نہیں ۔
[الفتاوى الكبرى: 285/2]
(ابن حزمؒ ) جو شخص عمداََ نماز چھوڑے رکھے حتی کہ اس کا وقت ختم ہو جائے تو وہ کبھی بھی اس کی قضا نہیں دے سکتا البتہ اسے چاہیے کہ نیک کام کرے اور کثرت سے نفل نماز ادا کرے تاکہ قیامت کے دن اس کا ترازو (یعنی دایاں پلڑا ) وزنی ہو سکے اور مزید اسے توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔
[المحلى: 235/2]
(صدیق حسن خانؒ) اسی کے قائل ہیں۔
[الروضة الندية: 336/1]
البتہ جمہور کے نزدیک ایسے شخص پر بھی قضاءِ نماز واجب ہے۔
[الفقه الإسلامي وأدلته: 129/2 – 145]
لیکن ان کے پاس اس کی کوئی واضح دلیل موجود نہیں سوائے حثعمیہ کی حدیث کے ، جس میں یہ لفظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
دين الله أحق أن يقضى
”اللہ کا قرض ادائیگی کا زیادہ مستحق ہے۔“
[بخاري: 1953 ، كتاب الصوم: باب من مات وعليه صوم ، مسلم: 1335 ، موطا: 359/1 ، أبو داود: 1809 ، نسائي: 2635 ، ترمذي: 928 ، ابن ماجة: 2909]
(البانیؒ) یہ حدیث وجوب قضاء کے ثبوت کے لیے کافی ہے۔
[التعليقات الرضية على الروضة الندية: 356/1]
(شوکانیؒ ) عمدا تارک نماز پر وجوب قضاء کے لیے کوئی دلیل موجود نہیں البتہ یہ حدیث: دين الله احق اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ نماز بھی انسان پر اللہ کا حق ہے اس لیے وہ زیادہ حق دار ہے کہ اسے ادا کیا جائے ۔
[السيل الجرار: 290/1]
(راجح) جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے پر قضائی واجب نہیں کیونکہ حدیث کے یہ الفاظ دين الله احق عام ہیں اور ایک خاص واقعہ کے متعلق ہیں جبکہ عمداََ تارکِ نماز کی قضائی خاص ہے اور عبادات میں کسی بھی خاص عمل کے لیے خاص دلیل ہونا ضروری ہے اس لیے چونکہ اس کی کوئی واضح دلیل (ہمارے علم میں ) نہیں لٰہذا ہم عدم قضا پر ہی توقف کریں گے۔ البتہ اگر گذشته حدیث دين الله أحق کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی شخص مترو کہ نمازیں ادا کرتا ہے تو بہتر ہے کیونکہ عبادت اجر و ثواب اور قرب الٰہی کا موجب ہے۔

اگر کسی عذر کی وجہ سے ہو تو یہ قضاء نہیں بلکہ عذر ختم ہونے کے وقت ادا ہی ہے

➊ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من نسي صلاة فليصلها إذا ذكرها فلا كفارة لها إلا ذلك
”جو شخص نماز پڑھنا بھول گیا وہ اسے اسی وقت پڑھ لے جب اسے یاد آئے کیونکہ اس کا اس کے علاوہ کوئی کفارہ نہیں ۔“
[بخاري: 597 ، كتاب مواقت الصلاة: باب من نسى صلاة فليصل إذا ذكر ، مسلم: 683 ، ترمذي: 178 ، ابن ماجة: 696 ، نسائي: 293/1 ، أبو داود: 442 ، أبو عوانة: 385/1 ، دارمي: 280/1 ، ابن خزيمة: 993]
➋ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من نسي صلاة فليصلها إذا ذكرها فإن الله تعالى قال ”وأقم الصلاة الذكرى“
”جو شخص نماز پڑھنا بھول جائے تو جب اسے یاد آئے اسے چاہیے کہ نماز پڑھ لے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ”جب میں تجھے یاد آ جاؤں تو نماز قائم کر ۔“
[مسلم: 680 ، كتاب المساجد ومواضع الصلاة: باب قضاء الصلاة الفائتة ، أبو داود: 435 ، نسائي: 296/1 ، ابن ماجة: 697 ، أبو عوانة: 253/2 ، بيهقي: 217/2]
اس سے معلوم ہوا کہ یہ اس کا وقتِ ادا ہے قضا نہیں۔
[السيل الجرار: 289/1 ، روضة الندية: 337/1]
➌ حدیث نبوی ہے کہ :
رفع القلم عن ثلثة عن النائم حتى يستيقظ
”تین آدمیوں کا گناہ نہیں لکھا جاتا سونے والے شخص کا جب تک وہ بیدار نہ ہو جائے ۔“
[أبو داود: 4401 ، كتاب الحدود: باب فى المحنون يسرق أو يصيب حدا]
➍ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب غلبہ نیند کی وجہ سے وقت پر نماز فجر نہ پڑھ سکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:
إنه ليس فى النوم تفريط إنما التفريط فى اليقظة فإذا نسى أحدكم صلاة أو نام عنها فليصلها إذا ذكرها
”قصور و کوتاہی سونے میں نہیں ہے بلکہ جاگنے میں ہے تو جب تم میں سے کوئی نماز پڑھنا بھول جائے ، یا اس سے سویا رہ جائے تو جب اسے یاد آئے نماز پڑھ لے۔“
اور سنن ابی داود کی ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
إنما التفريط على من لم يصل حتى يحيى وقت الصلاة الأخرى
”صرف قصور و کوتاہی ایسے شخص میں ہے جو نماز کو نہ پڑھے حتی کہ دوسری نماز کا وقت آجائے ۔“
[مسلم: 681 ، كتاب المساجد ومواضع الصلاة: باب قضاء الصلاة الفائتة ، أبو داود: 437 ، 441 ، كتاب الصلاة: باب من نام عن الصلاة أو نسيها ، صحيح أبو داود: 425 ، ترمذي: 177 ، نسائي: 294/1 ، ابن ماجة: 698]
ان تمام احادیث میں موجود یہ الفاظ فليصلها إذا ذكرها ”جب یاد آئے اس وقت نماز پڑھ لو ۔ “ اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ یاد آنے کے فوراََ بعد نماز پڑھ لینا واجب ہے۔ مزید برآں اگر نیند اور سہو کے علاوہ کسی عذر مثلاً جنگ ، سفر اور شدتِ مرض وغیرہ کی وجہ سے نماز رہ جائے تب بھی یہی حکم ہے کہ موقع میسر آتے ہی نماز پڑھ لی جائے جیسا کہ غزوہ خندق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چند نمازیں رہ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب موقع ملا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ادا فرمالیا۔
[صحيح: صحيح نسائى: 638 ، كتاب الأذان: باب الأذان للفائت من الصلوات ، نسائي: 661]

لیکن عید کی نماز دوسرے دن ادا کرنی چاہیے

مراد یہ ہے کہ اگر کسی وجہ سے علم نہ ہو سکے کہ آج عید کا دن ہے اور پھر وقت گزرنے کے بعد پتہ چلے تو اسی وقت نماز عید نہیں ادا کی جائے گی خواہ دن کا آخری وقت ہو بلکہ اسے دوسرے دن تک مؤخر کیا جائے گا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی ثابت ہے۔
حضرت ابو عمیر بن انس رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ لوگوں نے کہا:
غم علينا هلال شوال فأصبحنا صياما فجاء ركب من آخر النهار فشهدوا عند رسول الله أنهم رأوا الهلال بالأمس فأمر الناس أن يفطروا من يومهم وأن يخرجوا لعيدهم من الغد
”ماه شوال کا چاند ہم سے پوشیدہ رہ گیا جس بنا پر ہم نے صبح روزہ رکھ لیا پھر دن کے آخری حصے میں کچھ سوار آئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ گواہی دی کہ انہوں نے گذشتہ شب چاند دیکھا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس دن روزہ کھولنے کا اور اگلے دن نماز عید کے لیے آنے کا حکم دیا۔“
[صحيح: صحيح أبو داود: 1026 ، أحمد: 265/9 – الفتح الرباني ، أبو داود: 1175 ، كتاب الصلاة: باب إذا لم يخرج الإمام للعبد من يومه ، نسائى: 1557 ، ابن ماجة: 1653 ، ابن حبان: 3456 ، امام ابن حبانؒ ، امام ابن منذرؒ ، امام ابن سكنؒ اور امام ابن حزمؒ نے اسے صحيح كها هے۔ تلخيص الحبير: 87/2 ، امام خطابيؒ نے اسے صحيح كها هے۔ معالم السنن: 684/1 ، حافظ ابن حجرؒ نے بهي اسے صحيح كها هے۔ بلوغ المرام: 510]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1