تجدد پسندی سے الحاد تک: ایک فکری اور سماجی سفر
عیسائیت کی شکست و ریخت اور جدید الحاد کے غلبے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ لوگ فوری طور پر مذہب چھوڑ کر الحاد کی طرف نہیں جاتے بلکہ یہ ایک طویل فکری اور سماجی عمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس عمل کا آغاز تجدد پسندی سے ہوتا ہے جو آہستہ آہستہ الحاد کی طرف لے جاتا ہے۔ اس فکری سفر کو مختصر نکات میں بیان کیا جا سکتا ہے:
➊ مذہب کی تاریخی تشریح سے انکار اور انفرادی تشریحات
- سب سے پہلے مذہب کی تاریخی تشریحات کو مسترد کر کے انفرادی اور نئی تشریحات کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔
- اس عمل میں مذہب کی اجتماعیت ختم ہو جاتی ہے اور اس کو ذاتی زندگی تک محدود کر دیا جاتا ہے۔
➋ مذہب کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کرنا
- مذہب کی تاریخی بنیادیں نظر انداز ہونے کے بعد الفاظ باقی رہ جاتے ہیں، جن کی مختلف تعبیرات ممکن ہوتی ہیں۔
- چونکہ یہ تعبیرات کسی متفقہ معیار پر مبنی نہیں ہوتیں، اس لیے مذہب ایک ذاتی معاملہ بن کر رہ جاتا ہے۔
- اس طرح اجتماعی زندگی کو سیکولر بنانے کا جواز فراہم کیا جاتا ہے۔
➌ جدید معروضی تناظر میں مذہب کی تشریح
- انفرادی تشریحات مذہب کو جدید معروضی حقائق کی بنیاد پر سمجھنے کی کوشش کرتی ہیں۔
- یہ معروضی حقائق درحقیقت تنویری تاریخ اور علمیت سے اخذ کیے جاتے ہیں، نہ کہ خود مذہب سے۔
- نتیجتاً، مذہب کی تشریحات اس کی اپنی اصل تاریخ کے بجائے ایک غیر مذہبی تاریخ کی روشنی میں کی جاتی ہیں۔
➍ مذہب کی کمزور حیثیت
- جب مذہب کو غیر مذہبی علمیت میں سمویا جاتا ہے تو اس کی حیثیت کمزور ہو جاتی ہے۔
- یہاں مذہب کو وہ تقدس حاصل نہیں رہتا جو اسے اپنی اصل تاریخ میں میسر ہوتا ہے۔
- اس لیے جدید معروضی حقائق کے سامنے مذہب کو ثانوی حیثیت دی جاتی ہے اور خدا کے احکام کو بھی تبدیل کرنے کا تقاضا کیا جاتا ہے۔
➎ الحاد کی آخری منزل
- جب خدا کے احکام بھی معروضی تناظر کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جاتی ہے تو لوگ بالآخر مذہب کو مکمل طور پر ترک کر دیتے ہیں۔
- یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں الحاد کی جڑیں مضبوط ہو جاتی ہیں اور مذہب کا اثر ختم ہو جاتا ہے۔
مذہب کی تاریخیت سے جڑے رہنے کی ضرورت
مذہب کو درست طریقے سے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی اپنی تاریخی بنیادوں کو مدنظر رکھا جائے، نہ کہ غیر مذہبی معروضی پیمانوں کو۔
معروضی حقائق درحقیقت غیر مذہبی تہذیب اور تاریخ سے اخذ شدہ ہوتے ہیں، جن کی صداقت کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔
اگر ان حقائق کی بنیاد پر مذہب کی تشریحات کی جائیں تو نتیجہ تجدد سے الحاد کی طرف ہی لے جاتا ہے۔
احیائے اسلام: خیرالقرون کی طرف مراجعت
احیائے اسلام کا مطلب خیرالقرون (یعنی ابتدائی اسلامی دور) کی طرف رجوع کرنا ہے۔
جدید معروضی تناظر میں پیش کیا جانے والا کوئی بھی تصور احیائے اسلام درحقیقت اسلام کو تنویری تاریخ اور غیر اسلامی علمیت میں ضم کر دینے کے مترادف ہے۔
نتیجہ
عیسائیت کی تاریخ واضح طور پر بتاتی ہے کہ تجدد پسندی کا راستہ بالآخر الحاد پر منتج ہوتا ہے۔
اسلامی دنیا کو بھی اس سبق سے سیکھ کر اپنی راہ کا تعین کرنا چاہیے، ورنہ نتائج مختلف نہیں ہوں گے۔