میثاقِ مدینہ اور سیکولر ریاست کا دعویٰ
سیکولر طبقہ ایک غلط بیانی کرتے ہوئے یہ مشہور کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ مدینہ طیبہ میں حضور نبی کریم ﷺ نے جو ریاست قائم کی، اس کی بنیاد مذہب پر نہیں تھی۔ اس دعوے کی دلیل کے طور پر میثاقِ مدینہ کا حوالہ دیا جاتا ہے، جس میں مختلف اقوام و مذاہب کے ساتھ معاہدہ کیا گیا تھا، اور کہا جاتا ہے کہ یہ سیکولرزم اور کثیرالثقافتی (Multiculturalism) اصولوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ تاہم، یہ دعویٰ علمی لحاظ سے انتہائی بے بنیاد اور حقیقت سے کوسوں دور ہے۔
میثاقِ مدینہ اور سیکولر ریاست کا دعویٰ
یہ کہنا کہ میثاقِ مدینہ کی بنیاد پر مدینہ ایک سیکولر ریاست تھی، ایسا ہی ہے جیسے امریکہ میں کچھ مسلمانوں کی موجودگی یا امریکی فوج میں ان کی شمولیت کو دیکھ کر یہ دعویٰ کر دیا جائے کہ امریکہ ایک اسلامی ریاست ہے۔ اس قسم کی دلیل درحقیقت لاعلمی اور علمی دیوالیہ پن کا واضح ثبوت ہے۔
یہ دعویٰ درج ذیل حقائق کو یکسر نظرانداز کرتا ہے:
ریاست مدینہ کے اسلامی تشخص کے بنیادی دلائل
ریاست کی قیادت اور حتمی فیصلے کا اختیار:
معاہدے کے تحت ریاست کے تمام فیصلے اور قیادت حضور نبی کریم ﷺ کے ہاتھ میں تھی، اور یہ اختیار کسی جمہوری مشاورت یا ووٹنگ کا نتیجہ نہیں تھا۔
خلافت کا تسلسل:
حضور نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد بھی خلیفہ کے انتخاب کے لیے کسی غیر مسلم سے نہ مشورہ لیا گیا اور نہ ہی ان کا کوئی امیدوار زیرِ غور آیا۔
غیر مسلموں کو انتظامی مناصب نہیں دیے گئے:
کسی غیر مسلم کو نہ گورنر بنایا گیا اور نہ ہی کوئی ایسا اہم انتظامی یا فیصلہ کن عہدہ دیا گیا جس سے ریاستی معاملات متاثر ہوتے۔
معاہدے کی خلاف ورزی پر کاروائی:
جب یہودیوں نے میثاقِ مدینہ کی خلاف ورزی کی تو نبی کریم ﷺ نے کسی اسمبلی کی منظوری کے بغیر خود فیصلے کیے، جن میں انہیں مدینہ سے نکال دینا یا ان کے خلاف جنگی کاروائی شامل تھی۔
اسلامی قوانین کا نفاذ:
مدینہ کی ریاست میں اسلامی احکامات نافذ کیے گئے، جیسے سود کی ممانعت، جرائم پر حدود کا نفاذ، اور شریعت کے دیگر احکامات۔ حضرت ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ پر حدِ زنا کا نفاذ بھی مدینہ ہی میں ہوا تھا۔
میثاقِ مدینہ کی اصل نوعیت:
یہ معاہدہ ایک دفاعی و انتظامی نوعیت کا تھا جس کا مقصد ابتدا میں مسلمانوں کی کمزور عسکری حیثیت کی وجہ سے دیگر اقوام کو مدینے کی حفاظت میں شامل کرنا تھا۔ جنگی فیصلوں میں کسی غیر مسلم فریق کی رائے یا اجازت کو شامل نہیں کیا جاتا تھا۔
ریاست کی توسیع اور مذہب کا بول بالا:
مدینہ کی اسلامی ریاست وقت کے ساتھ ساتھ پھیلتی چلی گئی، اور قرآنِ مجید کی تعلیم کے مطابق غیر مسلموں پر جزیہ نافذ کیا گیا۔ جمہوری ریاستوں میں اس کے برعکس مذہب کو بتدریج سماجی معاملات سے نکال دیا جاتا ہے۔
معاہدے کے ابتدائی الفاظ:
معاہدے کے ابتدائی الفاظ ہی اس کے اسلامی تشخص کی گواہی دیتے ہیں: "ھذا کتاب من محمد النبی” (یہ دستاویز محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ہے)۔ اس حاکمانہ اندازِ بیاں سے واضح ہوتا ہے کہ یہ کسی جمہوری ریاست کا معاہدہ نہیں بلکہ اسلامی قیادت میں کیا گیا ایک معاہدہ تھا۔
نتیجہ:
مدینہ کی ریاست کو سیکولر کہنا علمی اور تاریخی حقائق سے انحراف ہے۔ جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے، وہ دراصل حقائق سے چشم پوشی کر رہا ہے۔ اگر میثاقِ مدینہ کی بنیاد پر مدینہ کو سیکولر کہا جائے تو پھر امریکہ کو بھی دارالاسلام قرار دینا پڑے گا، جو سراسر مضحکہ خیز بات ہے۔