لبرل اخلاقیات میں کونسنٹ کا فلسفہ حقیقت یا فریب

کونسنٹ (رضامندی) کا بنیادی تصور

لبرل اخلاقیات میں "کونسنٹ” کو بنیادی اصول کے طور پر اپنایا گیا ہے، جس کا مطلب کسی عمل کی رضامندی یا اجازت دینا ہے۔

اس اصول کے تحت ہر شخص کو اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے کا حق ہے، جب تک کہ اس سے کسی دوسرے کی آزادی یا مرضی متاثر نہ ہو۔

اسلام اور لبرل اصولوں میں فرق

اسلام بھی فرد کو انتخاب کا حق دیتا ہے، لیکن وہ کسی چیز کے خیر یا شر کا معیار "کونسنٹ” کو نہیں مانتا۔

اسلام کے مطابق اگر کوئی شخص اپنی مرضی سے گناہ کا کام کرتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ عمل قابلِ تحسین ہے۔

اسلام ایک ایسا اجتماعی نظام قائم کرتا ہے جس میں اللہ کے احکامات پر چلنا آسان اور ان سے انحراف کرنا مشکل بنایا جائے، جیسے:

  • سود پر پابندی
  • فحاشی کے خاتمے کے اقدامات
  • اسلامی سزاؤں کا نفاذ

کونسنٹ کی حقیقت اور اس پر اثر انداز ہونے والے عوامل

انسانی مرضی اور پسند فطری طور پر معاشرتی، نفسیاتی اور بیرونی عوامل سے متاثر ہوتی ہے۔

مثال کے طور پر:

  • ٹی وی پروگرام دیکھتے وقت اشتہارات زبردستی دکھائے جاتے ہیں، جو بالآخر انسانی ترجیحات کو بدل دیتے ہیں۔
  • اشتہارات کی طاقت اس بات کا ثبوت ہے کہ انسانی "کونسنٹ” پر مارکیٹنگ، میڈیا اور دیگر ذرائع کا گہرا اثر ہوتا ہے۔

بچپن کی تعلیم اور "کونسنٹ”

معاشرتی اقدار بچپن سے ہی بچوں کے ذہنوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

دین کی تعلیم پر سیکولر طبقوں کا اعتراض کہ یہ بچوں پر زبردستی ہے، دراصل دوہرے معیار کی عکاسی کرتا ہے:

  • اسکولوں میں جو تعلیم دی جاتی ہے، اس پر بھی بچوں کی رضامندی نہیں لی جاتی۔
  • لیکن دینی تعلیم پر اعتراض کیا جاتا ہے، حالانکہ دونوں صورتوں میں "کونسنٹ” کا تصور غائب ہوتا ہے۔

کونسنٹ: معاشی، سیاسی اور اخلاقی جبر کا آلہ

لبرل دنیا میں "کونسنٹ” کا دعویٰ تو کیا جاتا ہے، لیکن یہ اکثر معاشی اور سیاسی جبر کے تحت تشکیل پاتا ہے:

  • غریب عورت اگر معاشی حالات کی وجہ سے عصمت فروشی پر مجبور ہو تو اسے "کونسنٹ” کا نام دے دیا جاتا ہے۔
  • میڈیا، اشتہارات اور معاشرتی دباؤ کے تحت افراد کی پسند اور مرضی کو بدلنے کا پورا نظام موجود ہے۔

کونسنٹ اور مغربی معاشرتی مسائل

مغربی نظام میں عورت کو اپنے جسمانی تعلقات پر مکمل اختیار دینے کے باوجود مسائل جنم لیتے ہیں، جیسے:

  • "میریٹل ریپ” (شادی شدہ زندگی میں ریپ) کا تصور
  • نشے یا مدہوشی کی حالت میں تعلقات قائم کرنا اور پھر بعد میں "کونسنٹ” نہ ہونے کا دعویٰ
  • بچوں کی ختنہ پر پابندی جیسی مہمات، جہاں بچوں کی رضامندی نہ ہونے کو اخلاقی جواز بنایا جاتا ہے

کونسنٹ: لبرل نظام کا فریب

لبرل نظام "کونسنٹ” کے اصول کو اپنی اخلاقیات کی بنیاد بناتا ہے، لیکن عملی طور پر یہ ایک فریب ہے:

  • مارکیٹ اور میڈیا لوگوں کی مرضی کو کنٹرول کرتے ہیں اور انہیں ایسا ماحول فراہم کرتے ہیں جہاں ان کے "کونسنٹ” کو تشکیل دیا جاتا ہے۔
  • لبرل نظام عوام کو آزادی کا جھوٹا احساس دیتا ہے، لیکن درحقیقت ان کی مرضی کو سرمایہ دارانہ مفادات کے مطابق ڈھالا جاتا ہے۔

اسلامی نظام اور لبرل مطالبات

لبرل طبقے جب مسلم معاشروں پر لبرل ازم نافذ کرنے کی بات کرتے ہیں تو ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ:

  • مسلم حکام عوام پر اسلامی قوانین کا نفاذ نہ کریں
  • اور عوام کو ایسے اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے جو سیکولر اقدار اور مارکیٹ ڈیمانڈ کے مطابق ان کی مرضی کو ڈھالیں

نتیجہ

لبرل نظام میں "کونسنٹ” کو خیر و شر کا معیار بنانا ایک ناقص اصول ہے۔ حقیقی معنوں میں کوئی بھی انسان معاشرتی دباؤ، معاشی حالات اور دیگر بیرونی عوامل سے آزاد نہیں ہوتا۔ اس لیے، اسلام اللہ کے احکامات کو خیر و شر کا اصل معیار قرار دیتا ہے، کیونکہ اللہ علیم و خبیر ہے اور تمام عوامل کو جانتا ہے۔ لبرل ازم کے برعکس، اسلامی نظام انسانوں کو اس فریب سے نکال کر حقیقی بھلائی کی طرف لے جاتا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1