لبرلزم آزادی کا نعرہ یا الحاد کی سازش

لبرلزم کی تعریف میں ابہام

لبرلزم کے بارے میں جب بھی گفتگو ہوتی ہے، تو اس کی تعریف میں الجھاؤ اور فلسفیانہ پیچیدگیاں نمایاں ہوتی ہیں۔ یہ معاملہ عوام تو دور، خواص کے لیے بھی محض تعریفات تک محدود رہ کر کسی عملی نتیجے پر پہنچنا مشکل بنا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لبرلزم کا خوب چرچا تو ہے، لیکن اس کا حقیقی مفہوم نہ کوئی سیاستدان واضح کر پاتا ہے اور نہ ہی کوئی دانشور۔ جو کچھ وضاحت کے نام پر پیش کیا جا رہا ہے، وہ دراصل لبرلزم کی حقیقت کا بیان نہیں بلکہ محض "سیلزمین شپ” ہے، یعنی عوام کو ایک مخصوص نظریے کا گاہک بنانا۔

لبرلزم کی مبہم دعوت

لبرلزم کے برعکس، اس کے پیش رَو نظریات جیسے کمیونزم یا سوشل ازم اپنے مطالبات واضح طور پر پیش کرتے تھے۔ لیکن لبرلزم کے حامی اس قوم سے کیا چاہتے ہیں؟ یہ کبھی واضح نہیں ہوتا۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ لبرلزم کا حقیقی چہرہ اپنے وقت پر سامنے آتا ہے، جب ماحولیاتی کنٹرول اور حالات اس کے حق میں ہوں۔

لبرلزم کا بنیادی ایجنڈا صاف کفر اور ارتداد کی کھلی دعوت دینا ہے، جو کہ ایسی سطح پر ہے کہ اگر ایک ادنیٰ سا غیرت مند مسلمان بھی اسے سمجھے تو تڑپ اٹھے۔ لہٰذا، اس دعوت کا سدِّباب بروقت کرنا ضروری ہے۔ اگر لبرلزم کا اصل مفہوم عوام پر واضح کیا جائے تو بہت سی مشکلات سے بچا جا سکتا ہے، کیونکہ اللہ کے فضل سے ابھی ہمارے پاس بہت کچھ سلامت ہے۔

لبرلزم کے دعوے اور عملی تضادات

لبرلزم کو عام طور پر "آزادی پسندی” کے نام سے جانا جاتا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کس چیز سے آزادی؟ اگر یہ حقیقی آزادی کا علمبردار ہوتا تو دنیا کے مظلوم خطوں جیسے کشمیر، فلسطین اور چیچنیا کی تحریکوں کی حمایت ضرور کرتا۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔ لبرلزم کی آزادی پسندی کا یہ حوالہ ہی نہیں، بلکہ اس کا مطلب محض طرزِ زندگی اور بود و باش میں آزادی ہے۔

لبرلزم کی مغربی تاریخ

یورپ میں بادشاہوں اور چرچ کی حکمرانی سے آزادی کا دور صدیوں پہلے ختم ہو چکا ہے، لیکن اس کے باوجود لبرلزم کی تحریک آج بھی جاری ہے۔ یہ سوال اہم ہے کہ جب وہاں جمہوریت مکمل طور پر نافذ ہو چکی ہے اور بادشاہت و چرچ کا کہیں نام و نشان تک باقی نہیں، تو پھر کس چیز سے آزادی حاصل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے؟

لبرلزم کا اصل نشانہ: اخلاقی اور مذہبی قدریں

حقیقت یہ ہے کہ لبرلزم کا اصل نشانہ وہ آفاقی اخلاقی قدریں اور روایات ہیں جنہیں دینِ اسلام سمیت دیگر انبیائی تعلیمات نے فروغ دیا تھا۔ ان میں شرم، حیاء اور اخلاقیات شامل ہیں، جو انسانی فطرت کا لازمی حصہ رہی ہیں۔ لبرلزم ان قدروں کو چرچ کے باقیات کے ساتھ جوڑ کر سماج سے ختم کرنے کی منظم کوشش کر رہا ہے۔

فرد کی آزادی اور خدا سے بغاوت

لبرلزم "فرد کی مرکزیت” پر زور دیتا ہے، یعنی ہر شخص اپنی زندگی کے فیصلے خود کرے اور ریاست یا مذہب کا اس میں کوئی کردار نہ ہو۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس "آزادی” کا مقصد انسان کو خدا کے تابع کرنے کی بجائے اسے اس کا مخالف بنانا ہے۔

چرچ کی باقیات یا انبیاء کی باقیات؟

لبرلزم کے حامی مغرب کی اخلاقی روایات کو چرچ کی باقیات سمجھ کر انہیں ختم کرنا چاہتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ قدریں آسمانی تعلیمات اور انبیاء کی باقیات ہیں، جنہیں تمام انسانیت نے صدیوں تک اپنایا۔ ان کا خاتمہ دراصل خدا اور اس کے دین کے خلاف کھلی بغاوت ہے۔

لبرلزم: ایک منفرد نوعیت کا کفر

لبرلزم کوئی معمولی کفر نہیں بلکہ ایسا کفر ہے جس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ یہ وہ نظریہ ہے جو خدا، اس کی تعلیمات اور انسانی فطرت سے مکمل جنگ کرتا ہے۔ نبی ﷺ نے قربِ قیامت کی جن علامات کا ذکر کیا ہے، وہ سب لبرلزم میں نمایاں طور پر نظر آتی ہیں۔

نتیجہ: لبرلزم کا فکری مقابلہ ضروری ہے

لبرلزم محض ایک فکری یا نظریاتی بحث کا موضوع نہیں، بلکہ یہ ایک منظم چیلنج ہے جو ہمارے دین اور اقدار کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اس کا سدباب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی اصل حقیقت کو واضح کیا جائے اور قوم کو اس فتنے سے بچانے کے لیے بروقت اقدامات کیے جائیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1