قرآن و حدیث کی روشنی میں اللہ کے عذاب کی وضاحت
اللہ تعالیٰ کا عذاب ان لوگوں پر نازل ہوتا ہے جو اس کے احکامات کی نافرمانی کرتے ہیں، گناہوں میں مبتلا رہتے ہیں، اور توبہ کرنے کے بجائے اپنے گناہوں پر اصرار کرتے ہیں۔ اللہ اپنی رحمت کے باعث جلدی عذاب نہیں دیتا بلکہ بار بار معاف کرنے اور اصلاح کا موقع فراہم کرتا ہے۔ لیکن جب قومیں مسلسل ظلم، نافرمانی اور سرکشی میں ڈوب جاتی ہیں تو پھر عذاب نازل ہوتا ہے۔
قرآن کی روشنی میں اللہ کا عذاب کن پر نازل ہوتا ہے
➊ اللہ کی نشانیوں کو جھٹلانے والے
اللہ کے عذاب کا شکار ہونے والی اقوام کی ایک بڑی خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے اللہ کی نشانیوں اور اس کے نبیوں کو جھٹلایا۔ وہ اللہ کے احکامات کو رد کرتے اور نبیوں کی تعلیمات کا انکار کرتے تھے۔
"وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَكِنْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ”
(سورۃ ہود، 11:101)
"اور ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا، لیکن انہوں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا۔”
➋ شرک کرنے والے
اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا سب سے بڑا گناہ ہے اور اس پر اللہ کا سخت عذاب نازل ہوتا ہے۔
"إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ”
(سورۃ النساء، 4:48)
"بیشک اللہ شرک کو معاف نہیں کرے گا اور اس کے سوا جو کچھ ہے، جسے چاہے معاف کر دے گا۔”
➌ ظلم و فساد کرنے والے
وہ لوگ جو زمین پر ظلم اور فساد پھیلاتے ہیں، دوسروں کے حقوق غصب کرتے ہیں، وہ اللہ کے عذاب کے مستحق بن جاتے ہیں۔
"وَإِذَا أَرَدْنَا أَنْ نُهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا”
(سورۃ الاسراء، 17:16)
"اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو وہاں کے عیش پرستوں کو حکم دیتے ہیں، وہ اس میں کھلم کھلا نافرمانی کرنے لگتے ہیں، پس اس پر بات پوری ہو جاتی ہے، پھر ہم اسے تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔”
➍ نافرمانی اور سرکشی کرنے والے
جو لوگ اللہ کے احکام کو پسِ پشت ڈال کر مسلسل گناہوں میں مبتلا رہتے ہیں، ان پر اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے۔
"فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا عَنْهَا غَافِلِينَ”
(سورۃ الاعراف، 7:136)
"پھر ہم نے ان سے انتقام لیا اور ان کو دریا میں غرق کر دیا، اس لیے کہ انہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا تھا اور وہ ان سے بے پروا تھے۔”
➎ ناپ تول میں کمی کرنے والے
حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کا اہم گناہ ناپ تول میں کمی کرنا تھا۔ آج بھی جو لوگ تجارت میں دھوکہ دہی کرتے ہیں، وہ عذاب کے خطرے میں ہیں۔
"وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ”
(سورۃ المطففین، 83:1)
"ہلاکت ہے ڈنڈی مارنے والوں کے لیے!”
حدیث کی روشنی میں وضاحت
➊ اللہ کے نافرمان بندے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب لوگ کھلم کھلا بدکاری میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو اللہ ایسی آفات نازل کرتا ہے جو اس سے پہلے کسی نے نہ دیکھی ہوں۔
حدیث:
"إِذَا ظَهَرَتِ الْفَاحِشَةُ فِي قَوْمٍ أَذِنَ اللَّهُ تَعَالَى فِي هَلَاكِهِمْ بِعَذَابٍ لَمْ يَكُنْ فِي أَسْلَافِهِمْ”
(ابن ماجہ)
"جب لوگ کھلم کھلا بدکاری کرنے لگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر ایسی آفات نازل کرتا ہے جنہیں ان کے باپ دادا نے بھی نہ دیکھا ہوگا۔”
➋ ظلم کرنے والے حکمران اور قومیں
معاشرے میں جب ظلم عام ہو جائے اور اسے روکنے والا کوئی نہ ہو، تو اللہ کا عذاب نازل ہو سکتا ہے۔
حدیث:
"إِذَا رَأَيْتَ النَّاسَ يَظْلِمُونَ وَلَا يُنْكِرُونَ الظُّلْمَ، فَأَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَذِنَ فِي هَلَاكِهِمْ”
(ترمذی)
"جب تم دیکھو کہ لوگ ظلم کر رہے ہیں اور اسے روکنے والا کوئی نہیں، تو تم پر اللہ کا عذاب نازل ہو جائے گا۔”
➌ زکوٰۃ نہ دینے والے
زکوٰۃ کی ادائیگی میں کوتاہی اور مالی بددیانتی اللہ کے عذاب کا سبب بنتی ہے۔
حدیث:
"مَا مَنَعَ قَوْمٌ الزَّكَاةَ إِلَّا ابْتَلَاهُمُ اللَّهُ بِالسِّنِينَ”
(طبرانی)
"جس قوم میں زکوٰۃ نہ دی جائے، اللہ اس قوم پر قحط سالی مسلط کر دیتا ہے۔”
نتیجہ
قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ اللہ کا عذاب ان لوگوں پر آتا ہے جو اللہ کی نافرمانی، ظلم، شرک، اور دیگر بداعمالیوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بار بار معافی اور توبہ کا موقع دیتا ہے، لیکن جب لوگ اپنی سرکشی جاری رکھتے ہیں تو پھر عذاب نازل ہوتا ہے۔ اس عذاب سے بچنے کا واحد راستہ توبہ، اللہ کی طرف رجوع، اور اس کے احکامات پر عمل ہے۔