پاکستان کا آئین اور اسلامی دفعات
پاکستان کے آئین میں اسلام کو بنیادی حیثیت دی گئی ہے، اور اس کے مختلف آرٹیکلز اس بات کی واضح گواہی دیتے ہیں کہ ریاست کے تمام معاملات کو اسلامی اصولوں کے تحت چلایا جائے گا۔ لیکن کچھ سیکولر افراد اور طبقے آئین کی ان دفعات کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ اس مضمون میں ان نکات کا جائزہ لیا گیا ہے جن پر اکثر بحث کی جاتی ہے:
آئین پاکستان اور مذہب: بنیادی دفعات
آرٹیکل 2:
- پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔
- اللہ کو حاکمِ اعلیٰ مانا گیا ہے، اور ریاست پر لازم ہے کہ قرآن و سنت کے اصولوں کے مطابق ایک ایسا نظام بنائے جس میں انفرادی اور اجتماعی زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو۔
آرٹیکل 31:
- مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے سہولیات فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
- عوام کو قرآن و سنت کے مطابق زندگی گزارنے کا شعور دینے کے لیے اقدامات ضروری قرار دیے گئے ہیں۔
- اسلام کے اخلاقی معیارات کے فروغ کو بھی ریاست کی ذمہ داری کہا گیا ہے۔
آرٹیکل 227:
- تمام موجودہ قوانین کو اسلام کے مطابق ڈھالا جائے گا۔
- کوئی بھی نیا قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جا سکتا۔
سیکولر انتہا پسندی یا آئین کی خلاف ورزی؟
اگرچہ آئین میں اسلام کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے، لیکن سیکولر افراد اس کو مختلف طریقوں سے چیلنج کرتے نظر آتے ہیں:
- وہ کہتے ہیں کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہونا چاہیے۔
- آئینی دفعات جیسے آرٹیکل 31 اور 227 ان کے بیانیے سے متصادم ہیں، لیکن پھر بھی وہ ان دفعات کی موجودگی کے باوجود سیکولرزم کی بات کرتے ہیں۔
یہ رویہ کیا "آئین دوستی” کہلا سکتا ہے یا اسے "سیکولر انتہا پسندی” کہا جائے؟
میڈیا اور آرٹیکل 37: فحاشی کی ممانعت
آرٹیکل 37 واضح طور پر کہتا ہے کہ فحش ادب اور اشتہارات پر پابندی عائد کی جائے گی۔
- لیکن پاکستانی میڈیا پر اکثر ایسے پروگرام اور اشتہارات دکھائے جاتے ہیں جو اس آرٹیکل کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔
- جب اس مسئلے پر بات کی جاتی ہے تو میڈیا کے نمائندے معصومیت سے سوال کرتے ہیں کہ "فحاشی کیا ہوتی ہے؟”
- آئین کی اس خلاف ورزی پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی بلکہ سوال اٹھانے والوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
آرٹیکل 19: آزادیِ رائے کی حدود
آرٹیکل 19 آزادی رائے کا حق دیتا ہے لیکن اس کے ساتھ کچھ حدود بھی متعین کرتا ہے:
- اسلام کی عظمت اور شان کا احترام کیا جائے۔
- پاکستان کی سلامتی، وقار اور آزادی کے خلاف کوئی بات نہ کی جائے۔
- اخلاقی اقدار کا پاس رکھا جائے۔
اس پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے تو کہا جاتا ہے کہ کئی میڈیا چینلز بند ہو جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ آخر کیوں؟ کیا میڈیا آئین سے بالاتر ہے؟
غیر مسلم وزیراعظم کا معاملہ
آئین پاکستان کے مطابق وزیراعظم کے لیے مسلمان ہونا شرط ہے۔
- وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے لیے حلف لینا ضروری ہے جس میں عقیدہ ختم نبوت اور اسلامی تعلیمات پر ایمان شامل ہے۔
- لیکن سیکولر طبقہ غیر مسلم وزیراعظم کی وکالت کرتا ہے جو آئین سے براہِ راست ٹکراؤ ہے۔
آرٹیکل 38 اور سود کا خاتمہ
آرٹیکل 38 ریاست کو سود کے خاتمے کا پابند بناتا ہے۔
- جب شرعی عدالت نے سود کو ختم کرنے کا فیصلہ دیا تو حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی۔
- سوال یہ ہے کہ حکومت نے آئین کے واضح حکم کی خلاف ورزی کیوں کی؟
قادیانی مسئلہ اور آئین
قادیانیوں کو آئین میں غیر مسلم قرار دیا گیا ہے، اور ان پر یہ پابندیاں عائد کی گئی ہیں:
- وہ خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے۔
- اپنی عبادت گاہ کو مسجد نہیں کہہ سکتے۔
- مسلمانوں کی مخصوص علامات استعمال نہیں کر سکتے۔
اس کے باوجود کچھ سیکولر افراد قادیانیوں کو "قادیانی مسلمان” کہتے ہیں اور ان کی وکالت کرتے ہیں۔
ڈاکٹر عبدالسلام کی پذیرائی اور ڈاکٹر اے کیو خان پر تنقید بھی اسی طرزِ فکر کی عکاسی کرتی ہے۔
مذہبی اور سیکولر انتہا پسندی: دونوں آئین کے مخالف
- ایک طبقہ کہتا ہے کہ آئین مکمل طور پر اسلامی کیوں نہیں ہے۔
- دوسرا طبقہ کہتا ہے کہ آئین میں کچھ اسلامی دفعات کیوں شامل ہیں۔
- دونوں انتہائیں درحقیقت آئین کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔
نتیجہ
پاکستان کا آئین ایک واضح راستہ متعین کرتا ہے جس میں اسلام کو مرکزی حیثیت دی گئی ہے۔ لیکن مذہبی اور سیکولر دونوں انتہاپسند طبقے آئین کے اس توازن کو نہیں مانتے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ آئین کی روح کو سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے تاکہ ایک پرامن اور متوازن معاشرہ قائم ہو سکے۔