مغربی فکر میں وحی کا انکار اور عقل و وجدان کا کردار

وحی کا انکار اور عیسائیت کا رد

تحریکِ تنویر اور تحریکِ رومانویت بنیادی طور پر وحی کی حقیقت سے انکار کرتی ہیں اور ان کے اثرات عیسائیت کے انکار میں بھی نمایاں ہیں۔ پروٹسٹنٹ ازم نے وحی کے انکار کے لیے فکری جواز فراہم کیا۔ پروٹسٹنٹ ازم کے بانی لوتھر نے انسانی عقل کو وحی کی تفسیر کا واحد ذریعہ قرار دے کر وحی کے خلاف فکری تحریکوں کی راہ ہموار کی۔

وحی کا انکار: عقل انسانی اور حقیقت تک رسائی

وحی کے انکار کا مطلب یہ ہے کہ عقل استقرائی (Inductive Reason) اور عقل استخراجی (Deductive Reason) کے ذریعے حقیقت (Ontology) کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ عیسائیت اور اسلام یہ کہتے ہیں کہ بنیادی سوالات مثلاً:

  • انسان کیا ہے؟
  • کائنات میں انسان کی حیثیت کیا ہے؟
  • انسان کہاں سے آیا اور کہاں جائے گا؟

ان سوالات کے جوابات وحی کے بغیر ممکن نہیں۔ لیکن تحریکِ تنویر کا دعویٰ ہے کہ انسانی عقل ان سوالات کے جوابات فراہم کر سکتی ہے اور ماورائی علوم کی ضرورت نہیں۔

تحریکِ تنویر کی علمیات (Epistemology)

تحریکِ تنویر کے نزدیک حقیقت تک رسائی کا ذریعہ:

  • عقل استقرائی (Inductive Reason)
  • عقل استخراجی (Deductive Reason)

اسی طرح جیسے ریاضی اور منطق کے مسائل حل ہوتے ہیں، ما بعد الطبیعاتی حقائق اور انسانی وجود سے متعلق سوالات بھی عقل سے حل ہو سکتے ہیں۔

تحریکِ رومانویت: وجدان کو ذریعہ علم قرار دینا

تحریکِ تنویر کے برعکس تحریکِ رومانویت کا نظریہ یہ ہے کہ عقل نہیں بلکہ وجدان (Intuition) حقیقت تک رسائی کا ذریعہ ہے۔

وجدان (Intuition):

  • لاطینی زبان کا لفظ جس کا مطلب ’دیکھنا‘ ہے۔
  • انسانی جبلتیں، احساسات، اور خواہشات حقیقت کے فہم کا ذریعہ ہیں۔
  • عقل، وجدان کے ماتحت ہے اور اسے انسانی خواہشات و جبلتوں کا آلہ کار تصور کیا جاتا ہے۔

عقل، وجدان کی باندی ہے

تحریکِ رومانویت کا یہ نکتہ کہ "عقل خواہشات کی غلام ہے” بینتھم کے الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے:

"Reason is the slave of desire”

وجدان اور جبلتیں حقیقت تک پہنچنے کے لیے بنیادی ذرائع ہیں، اور عقل ان کے ماتحت رہ کر کام کرتی ہے۔

تحریکِ تنویر اور تحریکِ رومانویت کا ادغام: روسو کا نظریہ

روسو نے ان دونوں تحریکوں کو سیاسی و معاشرتی نظریات میں یکجا کیا۔ اس نے ارادہ عمومی (General Will) کا تصور پیش کیا، جس کے مطابق:

  • انسان فطرتاً خیر کا طالب ہوتا ہے۔
  • انسانی خواہشات، جبلتیں اور احساسات پاکیزہ ہیں، اور وہ عمومی فلاح کی طرف مائل کرتے ہیں۔
  • ارادہ عمومی بذاتِ خود خیر ہے کیونکہ انسان کی ذات بھی فطری طور پر خیر ہے۔

”The Self is essentially good”

انسانی نفس بنیادی طور پر خیر کا منبع ہے، اور اس بنیاد پر وحی کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

تحریکِ تنویر کا تصور: انسان اور خدا میں فرق نہیں

تحریکِ تنویر میں یہ خیال موجود ہے کہ انسان اور خدا میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ انسان کو علم، عمل، اور معاشرت میں کسی دوسرے وجود یا ہدایت کی ضرورت نہیں۔ اس تصور نے آزادی (Freedom) اور خودمختاری (Autonomy) کے تصورات کو جنم دیا، جو مغربی فلسفے میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔

مغربی تہذیب: انسانی الوہیت کا عقیدہ

مغربی تہذیب کا بنیادی عقیدہ وحی الٰہی کا انکار اور انسان کو الوہیت کا درجہ دینا ہے۔ مغرب کا عقیدہ یہ ہے کہ حقیقت تک رسائی عقل، جبلتوں اور انسانی خواہشات کے ذریعے ممکن ہے، وحی کے ذریعے نہیں۔

مغربی تہذیب کا بنیادی کلمہ:

”لا الہ الا الانسان”

اس عقیدے کی بنیاد پر اسلام اور مغرب کے درمیان کسی مکالمے کی گنجائش نہیں۔

خلاصہ

مغربی تہذیب وحی کے انکار اور انسانی عقل و وجدان کو بنیاد بنا کر تمام فکری مسائل حل کرنے کا دعویٰ کرتی ہے۔ اسلام اس تصور کو مکمل طور پر رد کرتا ہے اور اسے خالص گمراہی قرار دیتا ہے، کیونکہ حقیقت تک پہنچنے کے لیے وحی کی رہنمائی ضروری ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1