مغربی تہذیب، آزادی اور سرمایہ داری کا اسلامی تجزیہ

مغربی تہذیب کی بنیادیں

مغربی تہذیب جغرافیائی حد بندیوں کی بجائے فکری، نظریاتی اور عقیدے کی بنیاد پر قائم ہے۔ ہر تہذیب کا ایک مخصوص "تصورِ انسان” ہوتا ہے، اور اس تصور کو اپنانے کے بعد اس تہذیب کو علمی بنیادوں پر رد کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مغرب نے عسکری طاقت کے ساتھ ساتھ فکری برتری کے ذریعے غلبہ حاصل کیا، اور یہی اس کی اصل طاقت ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ صرف عسکری طاقت کے بل پر طویل المدتی غلبہ ممکن نہیں ہوتا۔ کسی بھی تہذیب کے زوال کی ابتدا اس کی فکری بنیادوں کے کمزور ہونے سے ہوتی ہے۔

مغربی فکر سے ناواقفیت کے نقصانات

ہم مسلمانوں نے مغربی فکری بنیادوں کو نہ سمجھنے کی وجہ سے تین بڑے نقصانات اٹھائے:

  • مخلص اسلامی جدوجہد کی ناکامی: مغربی فکر پر مبنی نظام میں اسلامی غلبہ کی کوششیں ناکام ہوئیں، کیونکہ غیر اسلامی بنیادوں سے اسلامی نتائج کا حصول ممکن نہیں۔
  • مغربی فکر کی ناقابل شکست حیثیت: مغربی فکر کو سطحی طور پر سمجھنے کے باعث اسے ناقابلِ شکست مان لیا گیا اور ہر مغربی نظریے کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی گئی۔
  • اسلامی ترقی کی غلط تشریح: بہت سے لوگ مغربی مادی ترقی کو اسلامی فکر کی بدولت سمجھتے رہے، حالانکہ مغرب اپنی فکری بنیادیں چھوڑ چکا ہے۔

عیسائیت کی شکست اور سیکولر ازم کا فروغ

مغربی تہذیب کا ارتقاء عیسائیت کی شکست کے نتیجے میں ہوا۔ عیسائیت میں خدا اور بندے کے تعلق کے بارے میں احکامات موجود تھے، لیکن انسانوں کے باہمی تعلق کے لیے واضح رہنمائی نہ ہونے کے باعث قانونی اور سماجی ڈھانچہ رومی سیکولر قوانین پر استوار ہوا۔ آگسٹین نے “City of Man” اور “City of God” کے درمیان فرق قائم کرکے سیکولر ازم کی بنیاد رکھ دی۔ عیسائی مذہبی طبقے کی بے جا مداخلت اور رہبانیت نے عام فرد کو مذہب سے دور کر دیا، جس کا نتیجہ پروٹسٹنٹ ازم اور پھر جدید سیکولر ریاست کی صورت میں نکلا۔

پروٹسٹنٹ ازم کے بنیادی اصول

  • ہر عیسائی کو بائبل کی تفسیر کرنے کا حق حاصل ہے۔
  • حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ آمد تک خدا اور انسان کا تعلق ختم ہو چکا ہے۔
  • دنیوی کامیابی کو اخروی کامیابی کا پیش خیمہ سمجھا جائے۔
  • معاشرتی درجہ بندی میں کسی کو مذہبی اختیار حاصل نہیں۔

پروٹسٹنٹ ازم سے جدیدیت کی طرف سفر

پروٹسٹنٹ ازم نے جدیدیت کی راہ ہموار کی، لیکن جدیدیت دو لحاظ سے مختلف ہے:

  • پروٹسٹنٹ فکر کا انحصار بائبل پر تھا، جبکہ جدیدیت کا کوئی مطلق نصاب موجود نہیں۔
  • پروٹسٹنٹ فکر آزادی کے محدود تصور پر مبنی تھی، جب کہ جدیدیت آزادی کے لامحدود تصور پر یقین رکھتی ہے۔

ڈیکارٹ اور جدیدیت

ڈیکارٹ نے جدید علمیت کی بنیاد رکھی، جس میں "میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں” کا تصور پیش کیا۔ اس نے انسان کے وجود کو ہر قسم کے شک سے بالاتر قرار دیا اور وحی و مذہب کو علم کی بنیاد ماننے سے انکار کر دیا۔ جدیدیت کے بنیادی نکات درج ذیل ہیں:

  • انسان کائنات کا مرکز ہے۔
  • آزادی اور مساوات بنیادی اقدار ہیں۔
  • عقل خیر و شر کا معیار ہے۔

لبرل ازم اور کمیونیٹیرین ازم

مغرب میں دو بڑی فکری تحریکیں، اینلائٹمنٹ اور رومانویت، عیسائیت کو مسترد کر کے انسانی آزادی کو محور قرار دیتی ہیں۔ ان تحریکوں نے لبرل ازم اور کمیونیٹیرین ازم جیسے نظریات کو جنم دیا۔

لبرل ازم:

  • فرد کو زیادہ سے زیادہ آزادی دینے پر زور دیتا ہے تاکہ وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کر سکے۔
  • سرمایہ دارانہ نظام لبرل ازم کا لازمی جزو ہے، جس میں معاشی پیداوار اور انفرادی کامیابی پر زور دیا جاتا ہے۔

کمیونیٹیرین ازم:

  • فرد کی بجائے اجتماعیت کو اہمیت دیتا ہے، یعنی قوم یا طبقے کے مفادات کو فوقیت دی جاتی ہے۔
  • قوم پرستی اور اشتراکیت اس کے ذیلی نظریات ہیں۔

آزادی کا تصور

مغرب میں آزادی کو دو طرح بیان کیا گیا ہے:

  • منفی آزادی: انسان کو ایسی نجی زندگی دی جائے جس میں ریاست یا معاشرہ مداخلت نہ کرے، اور وہ اپنی مرضی سے زندگی گزار سکے۔
  • مثبت آزادی: اجتماعی فلاح اور ترقی کے لیے فرد کو اپنی انفرادی آزادی کو قوم یا طبقے کی بہتری کے لیے قربان کرنا پڑے۔

لبرل معاشرہ اور سرمایہ داری

لبرل معاشرہ سرمایہ دارانہ نظام کو فروغ دیتا ہے، کیونکہ آزادی کی بڑھوتری سرمائے کی بڑھوتری پر منحصر ہے۔ سرمایہ داری انسان کو اپنی خواہشات کے حصول کے لیے زیادہ سے زیادہ محنت کرنے پر اکساتا ہے اور خود غرضی و حرص کو فروغ دیتا ہے۔

اسلامی نقطۂ نظر

اسلام انسان کو خودغرضی، لالچ اور حسد سے بچنے کی تعلیم دیتا ہے اور روحانی ترقی کو ترجیح دیتا ہے۔ اسلامی نظام میں فلاح و کامیابی کا معیار رضائے الٰہی اور آخرت کی کامیابی ہے، نہ کہ محض دنیاوی خواہشات کی تکمیل۔ لبرل ازم اور کمیونیٹیرین ازم، دونوں ہی انسان کو خدا بناتے ہیں اور خواہشات کی بنیاد پر زندگی کے فیصلے کرتے ہیں، اس لیے اسلامی انقلابیوں کو ان دونوں نظاموں کے خلاف مکمل جدوجہد کرنی چاہیے۔

نتیجہ

اسلامی انقلابی تحریکوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ مغربی تصورات کو ان کی اصل تاریخی اور فکری بنیادوں کے ساتھ سمجھیں اور ان کے ساتھ اسلام کو جوڑنے کی کوشش نہ کریں۔ مغربی نظامِ فکر، جیسے لبرل ازم، قوم پرستی، اور سرمایہ داری، اسلامی اصولوں سے متصادم ہیں اور انہیں اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرنے کے بجائے مکمل طور پر رد کیا جانا چاہیے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1