سرمایہ دارانہ نظام کے لبرل اور سیاسی ماڈلز کا تصادم

سرمایہ دارانہ نظام موجودہ دور میں بھی دنیا کے بیشتر حصوں پر حکمرانی کر رہا ہے۔ اگرچہ تاریخ میں ہمیشہ متبادل پیداواری نظام موجود رہے ہیں، لیکن آج سرمایہ داری تقریباً واحد اور غالب اقتصادی نظام بن چکا ہے۔ یہ نظام مختلف ماڈلز میں بٹا ہوا ہے، جن کی سربراہی چین اور امریکا کر رہے ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام: تاریخ اور موجودہ حالات

ابتدائی دور:

چھٹی صدی سے لے کر جدید دور کے آغاز تک مختلف معاشی نظام سرمایہ داری کے متبادل کے طور پر موجود رہے، جیسے کھیتی باڑی، غلاموں کی تجارت اور جاگیرداری۔

بیسویں صدی:

سوویت انقلاب (1917ء) کے بعد کمیونزم نے سرمایہ داری کا سخت مقابلہ کیا اور کئی ممالک میں اپنی اجارہ داری قائم کی، لیکن سرد جنگ کے خاتمے کے بعد کمیونزم کا زوال ہوا، اور اب سرمایہ داری کا کوئی نمایاں حریف موجود نہیں ہے۔

دو اہم ماڈل: لبرل کیپٹلزم اور سیاسی کیپٹلزم

1. لبرل میرٹوکریٹک کیپٹلزم

یہ ماڈل مغربی یورپ، امریکا، بھارت، انڈونیشیا اور جاپان جیسے ممالک میں غالب ہے۔ اس ماڈل کی بنیادی خصوصیات درج ذیل ہیں:

  • نجی پیداوار کا غلبہ
  • قابلیت کی بنیاد پر ترقی کے مواقع
  • مفت تعلیم اور ٹیکس کا موثر نظام

2. سیاسی کیپٹلزم

یہ ماڈل چین، میانمار، روس، ایتھوپیا، اور دیگر ممالک میں پایا جاتا ہے، جس میں ریاست کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہ نظام اقتصادی ترقی تو تیز کرتا ہے، لیکن شہری حقوق پر قدغن لگاتا ہے۔

لبرل کیپٹلزم کے چیلنجز

عدم مساوات میں اضافہ:

لبرل کیپٹلزم نے اشرافیہ کو مضبوط کیا، لیکن متوسط اور نچلے طبقے میں معاشی عدم مساوات بڑھ رہی ہے۔ امریکا میں دس فیصد امیر ترین افراد ملک کے نوے فیصد مالی اثاثوں کے مالک ہیں۔

اشرافیہ کا تسلسل:

اشرافیہ اپنے بچوں کی تعلیم اور سیاسی کنٹرول پر بھاری سرمایہ کاری کرکے اپنے طبقاتی تسلسل کو برقرار رکھتی ہے، جس کی وجہ سے سماجی ترقی محدود ہو جاتی ہے۔

سیاسی کیپٹلزم کی خصوصیات

ریاستی کنٹرول:

اس نظام میں ریاست طاقتور ہے، اور قوانین اپنی مرضی سے لاگو کیے جاتے ہیں۔

کرپشن:

کرپشن اس نظام کا لازمی جز ہے، لیکن اسے مسئلہ نہیں سمجھا جاتا۔

معاشی ترقی:

چین اور ویتنام جیسے ممالک میں گزشتہ دہائیوں میں بے پناہ معاشی ترقی ہوئی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ عدم مساوات بھی بڑھی۔

چین اور مغرب کا تصادم

معاشی و سیاسی اثرات:

چین نے اپنے ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ منصوبے کے ذریعے عالمی سطح پر اثر و رسوخ بڑھایا ہے۔ یہ منصوبہ ترقی پذیر ممالک کو انفراسٹرکچر کی فراہمی کے ذریعے چین کے دائرہ اثر میں لا رہا ہے۔

مغربی ممالک کی بے چینی:

مغرب چین کے اس ماڈل کو اپنے لیے ایک نظریاتی چیلنج سمجھتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب ایشیائی ممالک تیزی سے معاشی ترقی کر رہے ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام کا مستقبل

لبرل کیپٹلزم کا چیلنج:

اگر لبرل کیپٹلزم نے بڑھتی ہوئی عدم مساوات پر قابو نہ پایا تو یہ نظام سیاسی سرمایہ داری میں تبدیل ہو سکتا ہے۔

مساوات قائم کرنے کے اقدامات:

مڈل کلاس کو ٹیکس میں رعایت، مفت تعلیم اور امیر طبقے پر زیادہ ٹیکس لگانا ضروری ہو گا تاکہ نظام میں توازن قائم کیا جا سکے۔

نتیجہ:

سرمایہ دارانہ نظام کے دونوں ماڈلز (لبرل اور سیاسی) اپنی جگہ مضبوط ہیں، لیکن ان کے درمیان بڑھتی ہوئی مسابقت اور عدم توازن دنیا کے معاشی مستقبل کو متاثر کرے گا۔ کیا لبرل ماڈل اپنی بقا برقرار رکھ سکے گا یا سیاسی سرمایہ داری غالب آئے گی؟ یہ فیصلہ آنے والے برسوں میں ہوگا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1